جُھوم کر آئی ہے مستانہ گھٹا برسات کی
جی لبھاتی ہے نسیمِ جاں فِزا برسات کی
باغ کا ایک اِک شجر ہے اِک عروسِ سبز پوش
جس کو آ کر گُدگُداتی ہے ہَوا برسات کی
رحمتِ حق، ابر بن کر چار جانب چھا گئی
کب سے کرتے تھے دعائیں مہ لقا برسات کی
کوئلیں کُوکیں، پپیہے پی کہاں کہنے لگے
نغموں سے لبریز ہے رنگیں فضا برسات کی
جُھولتی ہیں تتلیوں کی طرح کم سِن مہوشیں
یا شگوفوں کو اُڑاتی ہے ہوا برسات کی
اِک طرف پھولوں کی آنکھوں میں اُمڈ آئی بہار
اِک طرف رنگت دِکھاتی ہے حنا برسات کی
سر سے ڈھلکے ہیں دوپٹّے، بال بکھرے، سر کُھلے
چھیڑتی ہے نازنینوں کو ہوا برسات کی
شاخساروں سے ملہاروں کی صدا آنے لگی
کیا سُہانے گیت گاتی ہے گھٹا برسات کی
دل مچلتا ہے مرا اختر گھٹا کو دیکھ کر
آہ یہ کالی یہ متوالی گھٹا برسات کی