دلِ حزیں سے خلش کاریِ ستم نہ گئی
ابھی تک اُن کی نگاہوں سے خوئے رم نہ گئی
مِلی نہ سعیِ برہمن سے زاہدوں کو مُراد
چراغ دَیر سے تاریکیِ حرم نہ گئی
ہنوز عشق سے اندازِ بیکسی نہ چُھٹا
ہنوز حُسن سے رنگینیِ ستم نہ گئی
بُتوں کو نکلے ہوئے مُدّتیں ہوئیں لیکن
ہنوز فطرتِ بُت سازیِ حرم نہ گئی
حرم میں حضرتِ زاہد نے لاکھ سر مارا
جبیں سے تیرگیِ سجدۂ صنم نہ گئی
وہ میری شوخ نگاری پہ لکھتے ہیں اختر
ابھی تک آپ کی گستاخیِ قلم نہ گئی
مطبوعہ "خیالستان" لاہور ستمبر1931ع
"رومان" لاہور اکتوبر 1937 ع