کیا کہہ گئی کسی کی نظر کُچھ نہ پُوچھیے
کیا کچھ ہوا ہے دل پہ اثر کچھ نہ پُوچھیے
جُھکتی ہوئی نظر سے وہ اُٹھتا ہوا سا عشق
اُف وہ نظر، وہ عشق مگر کُچھ نہ پُوچھیے
وہ دیکھنا کسی کا کنکھیوں سے بار بار
وہ بار بار اُس کا اثر کُچھ نہ پُوچھیے
رو رو کے کس طرح سے کٹی رات، کیا کہیں
مر مر کے کیسے کی ہے سَحَر، کچھ نہ پُوچھیے
اختر دیارِ حُسن میں پُہنچے ہیں مر کے ہم
کیوں کر ہوا ہے طے یہ سفر کچھ نہ پُوچھیے