دیوانہ کر دیا ہے غمِ انتظار نے
اب تک خبر نہ لی مری غفلت شعار نے
بیمارِ شامِ ہجر کے آنسو نکل پڑے
کیا کہہ دیا ستارۂ شب زندہ دار نے
مخمُور خواب، بسترِ گُل سے اُٹھے ہیں وہ
انگڑائی لی ہے باغ میں صبحِ بہار نے
پُھولوں سے ہیں لدی ہوئی سرسبز ڈالیاں
کیا چھاؤنی سی چھائی ہے فصلِ بہار نے
دُنیا کے فِکر، دین کی باتیں، خُدا کی یاد
سب کُچھ بُھلا دیا ترے دو دِن کے پیار نے
توبہ بُھلائے دیتی تھی پیرِ مُغاں کا گھر
اُٹھ کر بتا دیا ہمیں ابرِ بہار نے
اَوروں کی کیا خود اپنی بھی سُدھ بُدھ نہیں رہی
دُنیا سے کھو دیا ہمیں ظالم کے پیار نے
مسحُور کر لئے ہیں بُتانِ حرم کے دل
اختر ہمارے خامۂ رنگیں نگار نے