اَے صبا کون سے گُلزار سے تو آتی ہے؟
تُجھ سے اُس غنچہ دہن کی مُجھے بُو آتی ہے!

پاس، فطرت کو ہے کِتنا مری مہ نوشی کا
جو کلی آتی ہے وہ لے کے سبُو آتی ہے

رنگ و بُو کا پھر اُٹھا صحنِ چمن سے طوفاں
پھر کوئی گُلبدن و غالیہ مُو آتی ہے

چاندنی رات کی تاثیر ہے یا نشّۂ مے
مُجھ کو ہر پھول سے اُس شوخ کی بُو آتی ہے

کُچھ تو کہہ ہم سے کہاں آنکھ لڑی ہے اختر
تیرے شعروں سے ہمیں عشق کی بُو آتی ہے!

مطبوعہ "رومان" لاہور جولائی 1936ع