نہ چھیڑ زاہدِ ناداں شراب پینے دے
شراب پینے دے خانہ خراب پینے دے
ابھی سے اپنی نصیحت کا زہر دے نہ مجھے
ابھی تو پینے دے اور بے حساب پینے دے
میں جانتا ہوں چھلکتا ہُوا گناہ ہے یہ
تو اِس گناہ کو بے احتساب پینے دے
پھر ایسا وقت کہاں، ہم کہاں، شراب کہاں
طلسمِ دہر ہے نقشِ بر آب پینے دے
مرے دماغ کی دُنیا کا آفتاب ہے یہ
مِلا کے برف میں یہ آفتاب پینے دے
کسی حسینہ کے بوسوں کے قابل اب نہ رہے
تُو اِن لبوں سے ہمیشہ شراب پینے دے
سمجھ کے اُس کو غفور الرّحیم پیتا ہوں
نہ چھیڑ ذکرِ عذاب و ثواب پینے دے
جو رُوح ہو چکی اک بار داغدار مری
تُو اور ہونے دے لیکن شراب پینے دے
شراب خانے میں یہ شور کیوں مچایا ہے
خموش اخترِ خانہ خراب پینے دے