جھنڈے گڑے ہیں باغ میں ابر و بہار کے
قُربان جاؤں رحمتِ پروردگار کے
گُلشن میں چند راتیں خوشی کی گزار کے
ابرِ رواں کے ساتھ گئے دن بہار کے
وہ رنگ اب کہاں چمنِ روزگار کے
بُلبُل کے نغمے ہیں نہ ترانے ہزار کے
رُسوائی کے دن آئے کسی مے گُسار کے
آنے لگے سلام چمن سے بہار کے
بے تاب ولولے ہیں ترے انتظار کے
آ اے مری بہار دن آئے بہار کے
ابرِ سیہ میں برقِ حسیں لہلہا اُٹھی
یا آ گئے وہ سامنے گیسو سنوار کے
اے ابر لے سنبھال کہ ہم ہاتھ سے چلے
اے توبہ الوداع دِن آئے بہار کے
باغوں میں جھوم جھوم کے بادل نہیں اُٹھے
گیسو بِکھر رہے ہیں عروسِ بہار کے
آؤ کہ ایسا وقت نہ پاؤ گے پھر کبھی
آتے ہیں روز روز کہاں دن بہار کے
اختر کسی کے گھر سے اِس انداز سے چلے
جیسے گزار آئے ہوں دن سب بہار کے