میرے غمزدہ

اشکِ تعزیت۔ ہائے۔ اِس اندوہناک خبر سے دل کو از بس ملال ہے کہ آپ کی ہمشیرۂ عزیز نے اِس دنیائے فانی سے رحلت کی۔مرحومہ کو میں نے ایک مرتبہ کے ہاں دیکھا تھا مگر اُس زمانے میں جبکہ میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔ کیسی پیاری بچی تھی آہ!میرا گو کہ تعارف نہیں تھا۔ مگر چونکہ وہ آپ کی ہمشیرہ تھیں۔ اِس لئے میں بھی اُنہیں اپنی عزیز بہن سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کی یاد میں میرا دل بے اختیار بھرا چلا آتا ہے۔

پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دِکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے

آپ اِس جانکاہ حادثہ میں۔ میری خلوص آمیز ہمدردی اور تعزیت قبول کیجئے۔ دعا ہے کہ خداوند کریم مرحومہ کو اپنی جوارِ رحمت کے گُلکدہ میں جگہ دے اور پسماندگان کو توفیقِ صبر۔

رات دن زیر زمِیں لوگ چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہِ خاک تماشا کیا ہے؟

مٹھائی کا شکریہ ادا کر کے آپ نے مجھے سخت شرمندہ کیا ہے۔ بھلا ایسی بے حقیقت بات پر ممنون ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بہرکیف میں آپ کے اِس ظالمانہ شکریہ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میں نے تو ہنسی سے کہا تھا کہ سُرمہ نورِ بصر بھیج دوں۔ ورنہ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ آپ کی مے گوں آنکھیں ماشاءاللہ ہماری شعاعِ جمال کا مسکن ہیں۔ اُن میں ہمارے لمعاتِ حُسن کی ہزاروں نہیں۔ لاکھوں منوّر جنّتیں آباد ہیں وہ دیکھ سکتی ہیں۔ ہماری ماہ پیکر ہستی کی ستارہ افشانی کو بھی! ہماری نشہ طراز آنکھوں کی میخانہ چکانی کو بھی۔ غرض وہ ہر ایک چیز کو اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں۔ افسوس ہے کہ آپ نے "گلفروش" کے اجراء کا ارادہ ملتو ی کر کے میری دیرینہ تمنّا کا خون کر ڈالا۔ آخر اِس معاملہ میں آپ والدین کے دست نگر کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کے آپ خود کفیل نہیں؟ مگر میں غلطی پر ہوں۔ بھلا مجھے آپ کے نجی معاملات میں دخل انداز ہونے کا کیا حق ہے؟معاف کیجئے گا۔ بعض اوقات میں بہت بہک جاتی ہوں۔ کہنا صرف اِس قدر تھا۔ کہ اگر میں اتنی حقیر رقم پیش کروں جو پرچہ کے چھ ماہ کے اخراجات کے لئے کافی ہو تو کیا آپ فوراً پرچہ نکال دیں گے؟

تعجبّ ہے کہ بیوی سے محبت۔ آپ کے نزدیک کوئی ضروری چیز نہیں۔ حالانکہ دنیا کا خیال ہے۔ کہ جب تک میاں بیوی کے مابین رشتۂ محبت قائم نہ ہو۔ اُن کا نباہ ہی نہیں ہو سکتا۔ خیر میں اِس موضوع پر کچھ نہیں لکھوں گی کہ کہیں ایسا نہ ہو۔ کہ آپ اِس سے کوئی اور نتیجہ اخذ کر لیں۔ آپ میری مسرّتوں اور طمانیتوں کے لئے دعا نہ فرمائیے۔ بلکہ یہ دعا کیجئے کہ خدا مجھے دنیا سے اُٹھا لے۔ ہاں۔ مجھے موت دے۔ کہ اب کسی کے فراقِ ابدی کی کاہشیں حد سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ہائے اب مجھ میں برداشت کی تاب نہیں رہی۔ اب برداشت نہیں کر سکتی۔ آہ

آس کہتی ہے، کہ مجھ کو صبر کر میں مٹ چلی
صبر کہتا ہے کہ دل کو تھام میں چلتا ہوا

للہ۔ دعا کرو۔ اپنی انتہائی روحِ عبودیت سے میرے مرنے کی دُعا کرو۔ کہ اُس کے بغیر مجھ تِیرہ بخت کے روز افزوں غم و الم اور درد و دکھ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ آپ نے لکھا ہے۔ کہ میں تو شاید تمہیں نہ بھولوں۔ تم اپنی کہو۔ آخر میں اپنی کیا کہوں۔؟اور کیوں کہوں؟؟جبکہ آپ کے اندازِ تحریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ کہ آپ مجھے کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں کریں گے۔ بہت اچھا۔ بھُول جائیے۔ مجھے بھُول جائیے۔ میں حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاؤں گی۔

تمہارا شکوہ تمہارے آگے، کریں ہماری مجال کیا ہے؟

اگلے ہفتہ تک دہلی کی طرف روانگی ہے۔ آپ اگر اِس عریضہ کا جواب دینا چاہیں۔ تو اِس طرح کیجئے گا۔ کہ کالج جاتے وقت مجھے راستہ میں ملئے اور جب تانگہ آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ تو قریب سے گزر کر خط مجھے پھینک دیجئے لیکن جواب نہ دینا آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ میں مجبور نہیں کرتی۔ زیادہ کیا لکھوں؟ سوائے اِس کے کہ

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

والسّلام

راقمہ۔ وہی اندوہگیں

03.03.1928

(حاشیہ پر)اُمید ہے۔ کہ لکھنؤ میں اُس رقاصہ کے درشن بھی ہوئے ہوں گے

یاد تم آ گئے ڈوبی ہوئی سانسیں اُبھریں
دم، دمِ نزع مرا رہ گیا جاتے جاتے

سلمیٰ کا خط

ہم نہ سمجھے تھے یہ ظاہر داریاں
تیری باتوں نے بڑا دھوکہ دیا

"گُلکدہ کے ایڈیٹر صاحب۔ ہمارا خریدارانہ سلام قبول فرمائیں۔ موعودہ مضمون ارسال ہے۔ شاید آپ پسند فرمائیں! مگر نہیں۔ میرے مضامین اِس قابل کہاں۔ کہ آپ اُن کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھیں۔ میرا مقصود تو صرف اِسی قدر ہے۔ کہ جہاں تک ہو سکے۔ آپ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کروں۔ معلوم نہیں اب گُلکدہ کا اجراء کیونکر عمل میں آیا ہے۔ بہرکیف جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھی گُلکدہ کی مالی امداد میں کچھ حصہ لے سکوں۔ مگر آپ جواب نہیں دیتے۔

مہربانی ہو گی۔ اگر خطوط والی کا پی مجھے عاریتاً عنایت فرمائیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اِک نظر دیکھنے کے بعد آپ کو واپس کر دوں گی۔ اِس درخواست یا حکم کی علّت صرف یہ ہے۔ کہ میں اِس دفتر بے معنیٰ کے دیکھنے کی آرزو مند ہوں۔ اور بس۔

کیوں جی۔ "اُن سے" کی اشاعت کی اب ضرورت کیا تھی؟ کیا اب بھی آپ کو "اُن سے" کوئی شکایت ہے؟آپ کی یہ نظم میری ایک سہیلی "کوکب سلطانہ" نے بہت پسند کی تھی۔ یا صحیح الفاظ میں وہ اِس سے متاثر ہوئی تھیں۔ لو۔ اب مغرور ہو جاؤ۔ (؟؟) زیادہ کیا لکھوں؟ سوائے اِس کے کہ مذکورہ کاپی ضرور مجھے دِکھائیے۔ عنایت ہو گی۔ 3 مئی کودن کے ساڑھے بارہ بجے آپ کا شدید انتظار کیا جاوے گا۔ سُن لیا نا؟

تعدیہ دہی کی معافی۔ نیاز مند!

چند اشعار اِرسال ہیں۔

رنگین
طلوعِ صبحِ روشن حُسنِ فطرت کا تبسّم ہے
نمودِ شامِ غمگیں شمعِ اُلفت کا تبسّم ہے
یہ کس نے مجھ کو دیکھا ہے تبسّم ریز نظروں سے
مری رگ رگ میں طوفانِ محبت کا تبسّم ہے

ذرّہ ذرّہ میں ہیں معمور شبستاں تجھ سے
پتہّ پتہّ میں ہیں سر سبز گلستاں تجھ سے
تُو ہی تُو جلوہ نما ہے کہ ہوا خلوت میں
ترا سایہ بھی ترے نور میں پنہاں تجھ سے
اُف رے اندازِ وفا سب سے ملا تُو لیکن! پھر بھی آباد رہا میرا شبستاں تجھ سے