بیماری نے اب تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا آج کل میں ایک قابل معالج کے زیرِ علاج ہوں اِس لئے فی الحال خط بھیجنے کی تکلیف نہ فرمائیے۔

کیوں جی۔ اِس بعد از وقت اور جھوٹ موٹ کے اعتراف کی اب کیا ضرورت ہے؟ میں پوچھتی ہوں۔ اب ضرورت ہی کیا تھی؟معاذاللہ اِس درجہ سفید جھوٹ۔ پھر وہ بھی خواہ مخواہ۔ خدا سمجھے اِن گندم نما جو فروشوں سے۔ اِس زبانی جمع خرچ اور لفاظی سے احتراز کیجئے۔ اور کوئی عملی ثبوت دیجئے۔ ہاں میں عملی ثبوت چاہتی ہوں۔ اور وہ وہ صرف یہ ہے کہ اپنی سلمیٰ کو آنے والی رسوائیوں اور بدنامیوں سے بچائیے۔ کہ کہیں غریب گنہگار، گناہِ بے لذّت کی مصداق بن کر نہ رہ جائے۔

میرا خیال ہے۔ اور آہ! کیا کہوں۔ کہ اِس خیال نے مجھے اندیشوں کے کیسے بحرِ عمیق میں غرق کر رکھا ہے۔ کہ آپ نہیں تو بہ میں کہنا یہ چاہتی تھی کہ آپ کی وہ راز داں ہستیاں عنقریب کوئی فتنہ برپا کرنے والی ہیں۔ تو پھرکیا یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ کیا میں آپ سے یہ توقع رکھ سکتی ہوں؟ کیا آپ میرے لئے۔ میری خاطر۔ کوئی کسی قسم کا کوئی ایثار کر سکتے ہیں؟بہتر یہ ہے۔ کہ آپ اب ماضی کی تلخ یاد کو بھول جائیے۔ اِس طرح جیسے

بھُولا سا ایک خواب ہے عہدِ شباب کا

اور مستقبل کا خیال کیجئے۔ میرا مطلب یہ ہے۔ کہ آپ اپنے مستقبل کو شاندار بنانے کی جدوجہد کیجئے کہ اب سلمیٰ۔ آہ!وہ سلمیٰ(جس کے خیالات کی دنیا کبھی کسی زمانہ میں سینکڑوں خوشیوں اور ہزاروں مسرّتوں سے۔ طمانیتوں سے معمور تھی۔ آباد تھی۔ آپ کی محبت کے قابل نہیں رہی۔ ) اور نہ آپ اُس کی بے پایاں اور بے لوث محبت کے لائق رہے۔ آخر میں ایک امرِ واقعی کے اظہار سے کیوں گریز کروں؟

آپ دریافت کرتے ہیں۔ کہ کیوں؟مگر میں اِس کا کچھ جواب نہ دوں گی۔ ہاں اِس قدر کہوں گی۔ کہ آپ اِس اِستفسار کا جواب اپنے دل کی گہرائیوں میں۔ اپنی روح کی خلوتوں میں تلاش کیجیے۔ اور بس۔ آخر میں مجھے یہ کہنا ہے۔ کہ آپ للہ میری تمام خطاؤں کو بخش دیجئے۔ نظرانداز کر دیجئے۔ میں ٹھہری ایک مریض۔ کون جانتا ہے۔ کس وقت دم نکل جائے۔

جواب کا انتظار کروں یا

آہ!

آپ کی سلمیٰ

آپ کی وہ کانفرنس ابھی ختم نہیں ہوئی کیا؟؟

"میلہ جُورا"

کوکب کا خط

آپ بیمار کیوں ہیں۔ اور کیا؟ مذاق نہیں کرتا۔ آپ کی بات کو جھوٹ نہیں سمجھتا۔ مگر نہ معلوم کیوں یقین نہیں ہوتا کہ آپ بیمار ہیں۔

اعتراف کی ضرورت اور عدم ضرورت کا احساس مجھ پر منحصر ہے۔ آپ کو اِس سے کیا تعلق؟مجھے یاد نہیں۔ میں نے یہ نظم خدمتِ والا میں ارسال کی ہو؟رہا یہ کہ اِس کی تعمیر میں سفید جھوٹ صرف ہوا ہے یا سیاہ۔ اِس کا جواب میں آپ کے موجودہ کرخت اور درشت لہجے کو دیکھتے ہوئے دینا نہیں چاہتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں۔ کہ آپ گھبرائیے نہیں۔ سلمیٰ کسی اور ہستی کا بھی تو نام ہو سکتا ہے۔ ہاں ایک نئی سلمیٰ اسٹیج پر نمودار ہو رہی ہے اور وہ غریب۔ تمہاری طرح بے درد۔ اور بے داد گر نہیں ہے۔

آپ نے مجھ سے یہ تو قع کی ہے کہ میں آپ کی خاطر یہ ایثار کروں کہ ماضی کی یاد کو بھول جاؤں یا بھلا دوں۔ میں عرض کرتا ہوں۔ ایسا ہی ہو گا۔ آپ مطمئن رہئے۔

حقیقتاً میں اب کسی طرح آپ کی محبت کے لائق نہیں رہا ہوں۔ اُس زمانے میں آہ!اُس حسین و خوشگوار زمانے میں جبکہ سرمستیِ محبت کا عروج لاہور کی اکثر سرمائی راتوں کو اپنے ہنگامہ ہائے سُکر و نشاط سے معمور رکھتا تھا۔ میں نے دو شعر کہے تھے۔

اگر مجھے نہ ملیں تم تمہارے سرکی قسم
میں اپنی ساری جوانی تباہ کر لوں گا
جوتم سے کر دیا محروم آسماں نے مجھے
میں اپنی زندگی صرفِ گناہ کر لوں گا

اِس لئے اب جبکہ اِس خوفناک خواب کی خوفناک تعبیر بروئے کار آ چکی ہے۔ ناکامیِ تمناّ کے خلاف میرا تلخ سے تلخ انتقام یہی ہو سکتا ہے کہ میں جس حد تک کر سکوں۔ اپنی معصومیتِ حیات کو مجروح کر دوں۔ آہ!ذبح کر دوں۔ اور اب مجھے معلوم نہیں۔ آپ کن حسّیات کے ساتھ سنیں گی کہ میں ایک زخمی شیر کی طرح بے دردیِ فطرت اور بے رحمیِ دُنیا سے اپنا یہ حسین انتقام لے رہا ہوں۔ آہ!ایک لطیف۔ ایک لذیذ شاعرانہ انتقام۔ انتقام کی بسم اللہ ہو چکی ہے۔ گناہ کی پہلی رات کا رتجگہ منایا جا چکا ہے اور مستقبل کی جنگ کا تخیّل۔ دلآویز تخیّل پیشِ نظر ہے اور پھر ایک لامحدود گناہ کالا محدود تخیّل میرے دماغ کی پریشان فضاؤں میں آوارہ لامحدود۔

اللہ اِس انتقام میں کس قدر مسّرت اور ندرت ہے۔

یہ پہلا موقعہ ہے۔ کہ تمہارا مخاطب ایک عام انسان۔ ایک غلیظ۔ ایک ناپاک انسان ہے جس کو جنونِ معصیت اپنی تُند رو میں لئے جاتا ہے۔ ہر چند جس طرح (اور تم سے بڑھ کر اُس کا کون اندازہ کر سکتا ہے کہ جس طرح وہ اپنی ادائے معصومیت میں عام انسانوں سے ممتاز تھا۔ اُسی طرح وہ اب اپنی شانِ معصیت میں بھی دنیا کے تمام نفس پروروں سے بلند ہے۔ ہاں۔ ایک نمایاں امتیازِ گناہ کا مالک ہے۔ فطرت اِس معاملے میں ضرور فیاض ہے۔ (اور اس کے لئے میں اُس کا ممنون ہوں )کہ اُس نے میری امتیازی فطرت کا شاعرانہ غرور ہر جگہ محفوظ رکھا ہے۔ میری یکتائی کے انفرادیت کے آئینے کو اُس کے جوہرِ پندار کو۔ کسی رنگ میں بھی ٹھیس لگنے نہیں دی ہے۔ میری دیوانگیِ گناہ یا بہیمتِ شباب کا وار سوسائٹی کے اُس بلند طبقے کو سہنا پڑے گا۔ جس کے دامن پر بقول کَسے حوریں بھی نماز پڑھتی ہیں۔ (کس قدر بد ذوقی ہے۔ حوروں کو نماز سے کیا نسبت)اور یہ وار اُنہی کو سہنا چاہئے۔

نسوانی معصومیتوں اور دوشیزگیوں کے لئے اب میرے پاس ایک خراش۔ ایک زخم کے سوا کچھ نہیں رہا۔

انقلابات ہیں زمانے کے

اور جب تک انسانی دُنیا مجھ سے محروم نہیں ہوتی۔ میں اُن کے نازک و ناز آفریں حصے کے حق میں ایک خطرۂ عظیم بن جانا چاہتا ہوں۔ مگر ہائے جوانی۔ بے ثبات جوانی۔ کاش میں اِسے قیامت تک برقرار رکھ سکوں اور یونہی بدستور اپنی انتقام پرور روح کی نشاط کاریوں میں مصروف رہوں۔ اللہ رے لذّتِ انتقام!

سُنتی ہو۔ اِس حالت میں اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میں تمہاری محبت کے لائق ہوں تو یہ میرا جھوٹ ہے۔ یقیناً میں تمہاری محبت کے لائق نہیں رہا ہوں۔بہرحال اِس قصے کو چھوڑ ئیے۔ اور چونکہ اب حقیقتاً میں ایک دوسرے کو بھول جانا چاہئے۔ اُسے بھُول جائیے۔ جائیے۔ بھلا دیجئے۔

اور زیادہ کیا لکھوں۔

والسّلام

آپ کا یادِ ایاّم