پہلی سطح جو سب سے نمایاں ہے اور اکثر لوگوں کے علم میں بھی ہے‘ اس کے بارے میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے. تاہم موضوع کے اعتبار سے اس کا تذکرہ ضروری ہے. اور وہ یہ کہ موجودہ دنیا یک قطبی عالم (Unipolar World) بن چکی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کو اس وقت روئے ارضی کی واحد سپریم طاقت (Sole Supreme Power on Earth) کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے. اس کی حربی طاقت کا کوئی اندازہ ممکن نہیں ہے‘ اس لیے کہ وہ ہر موقع پر ایک نیا ہتھیار نکال کر لاتا ہے. اس کے ہاں ریسرچ مسلسل جاری ہے. افغانستان میں جب روسیوں کے خلاف جہاد ہو رہا تھا تو دنیا نے سٹنگر میزائل پہلی مرتبہ دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا‘ اس سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں ایسا میزائل بھی ہے جو سیدھے رخ پر جانے کے بجائے اپنے ہدف کا پیچھا کرتا ہے. پھر جب پہلی خلیجی جنگ ہوئی تو پیٹریاٹ (Patriot) میزائل آ گیا. اس سے پہلے اس کا کوئی تصور نہیں تھا کہ کسی حملہ آور میزائل کو فضا میں ہی تہس نہس کرنے والا میزائل ایجاد ہو چکا ہے.عراق کا سکڈ میزائل ہو یا کوئی اور میزائل جو ایٹمی ہتھیار لے کر آ رہا ہو‘ اسے یہ پیٹریاٹ میزائل فضا ہی میں تہس نہس کر سکتا ہے. پھرافغان امریکہ جنگ کے اندر بہت سی نئی نئی چیزیں سامنے آئیں. اب لیزر گائیڈڈ بم وجود میں آ گئے ہیں جو تیس پینتیس ہزار فٹ کی بلندی سے بھی ٹھیک نشانے پر جا کر لگتے ہیں. اس سے پہلے تو بمباری کے لیے بمبار جہاز کو نیچے آنا پڑتا تھا ‘اور ظاہر بات ہے جب جہاز نیچے آتا تھا تو اس کا امکان بہرحال موجود تھا کہ وہ اینٹی ایئر کرافٹ گن کا نشانہ بن جائے‘ جبکہ اب اس کا سوال ہی نہیں ہے. اب تو یہ تقریباً پینتیس ہزار فٹ کی بلندی سے لیزر گائیڈڈ بم پھینک دیتا ہے اور وہ لیزر شعاعوں کی رہنمائی میں سیدھے نشانے پر جاکر لگتے ہیں. بہرحال یہ تو صرف چند مثالیں ہیں‘ ورنہ اس کی حربی قوت کا کوئی اندازہ ممکن نہیں ہے.
پھر اس میں تکبر اس درجے بڑھ چکا ہے کہ عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کی اسے نہ کوئی فکر ہے نہ لحاظ. اسے اب اپنے بہترین اتحادیوں کی رائے کا بھی کوئی لحاظ نہیں. عراق کی جنگ کے خلاف امریکہ اور یورپ کے اندر وسیع ترین سطح پر مظاہرے ہوئے لیکن اس نے انہیں پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دی. یو این او ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوئی تو اس کو بھی دھکا دیا کہ بیٹھے رہو‘ ہم سب کچھ تنہا کرنے پر قادر ہیں. اس نے نئے نئے اصول بنائے ہیں. مثلاً pre-emptive strike کا اصول بنایا ہے کہ اگر ہمیں کسی ملک کی طرف سے ذرا سا بھی اندیشہ ہو گیا کہ وہ ہمارے لیے مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے تو ہمیں حق حاصل ہے کہ اُس پر حملہ کریں‘ ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی ملک کی طرف سے کوئی اقدام ہو اور پھر ہم حملہ کریں. امریکہ اپنی حربی قوت کے اعتبار سے ایک مست ہاتھی کے مانند ہے جس کا مقابلہ کرنے کی حیثیت کسی میں نہیں ہے‘ نہ یورپ میں‘ نہ جاپان میں. عالم اسلام کا تو ذکر ہی کیا ہے! اگرچہ اس کے ردّعمل کے طور پر دنیا کی دوسرے درجہ کی قوتیں علاقائی بنیادوں پر اتحاد قائم کررہی ہیں کہ امریکہ کی قطعی بالادستی کو بیلنس کیا جا سکے تاہم یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں!