(۱) .میں یہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے صرف دو حوالے دوں گا ‘ جس سے اندازہ کیجیے کہ یہ مسٹر محمد علی جناح بول رہے ہیں یا مولانا محمد علی جناح خطاب فرما رہے ہیں! ۱۱جنوری۱۹۳۸ء کو گیا ریلوے سٹیشن (بہار) پر ایک بہت بڑے مجمع عام (۱) انجمن خدام القرآن سندھ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے مذکورہ بالا اقتباسات میں سے کچھ کو "Quaid-e-Azam Speaks His Vision of Pakistan" نامی کتاب میں شائع کیا ہے‘ اور اب مزیداضافے کے ساتھ اس کا ایک نیا ایڈیشن شائع کیاجا رہا ہے‘ تاکہ جھوٹ کو کفن پہنا کر دفن کر دیا جائے. سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا کر فرمایا:
"Today in this huge gathering you have honoured me by entrusting the duty to unfurl the flag of the Muslim League, the flag of Islam, for you can not separate the Muslim League from Islam. Many people misunderstand us when we talk of Islam particularly our Hindu friends. When we say `This flag is the flag of Islam' they think we are introducing religion into politics- a fact of which we are proud. Islam gives us a complete code. It is not only religion but it contains laws, philosophy and politics. In fact, it contains everything that matters to a man from morning to night. When we talk of Islam we take it as an all-embracing word. We do not mean any ill will. The foundation of our Islamic code is that we stand for liberty, equality and fraternity."
’’آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے. یہ جھنڈا درحقیقت اسلام کا جھنڈا ہے‘ کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے. بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں. جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں‘ حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں.اسلام ہمیں مکمل ضابطۂ حیات دیتا ہے. یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین‘ فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے. درحقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے. جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں.ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں ‘بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی ‘ عدل و مساوات اور اخوت ہے.‘
‘
اس کے بعد آپ ۶مارچ ۱۹۴۶ء کو فرماتے ہیں:
"Let us go back to our holy book the Quran; let us revert to the Hadith and the great traditions of Islam, which have every thing in them for our guidance if we correct interpret them and follow our great holy book the Quran."
’’ہمیں قرآن پاک‘ حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے‘ اگر ہم ان کی صحیح ترجمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں.‘‘
یہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کی چند شہ سرخیاں پیش خدمت ہیں:
۶ جون ۱۹۳۸ء : ’’مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرمﷺ کا جھنڈا ہے.‘‘
۲۲نومبر۱۹۳۸ء : ’’اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے.‘‘
۸؍اپریل ۱۹۳۸ء ‘ اسٹار آف انڈیا : ’’ملتِ اسلامیہ عالمی ہے.‘‘
۷؍اگست ۱۹۳۸ء : ’’مَیں اوّل وآخر مسلمان ہوں.‘‘
۹؍نومبر۱۹۳۹ء : ’’مغربی جمہوریت کے نقائص.‘‘
۱۴نومبر۱۹۳۹ء : ’’انسان خلیفۃ اللہ ہے.‘‘
ٹائمز آف لندن‘ ۹ مارچ ۱۹۴۰ء :’’ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں.‘‘
۲۶ مارچ ۱۹۴۰ء : ’’میرا پیغام قرآن ہے.‘‘
قائد اعظم نے اقلیتوں کو بھی کچھ یقین دہانیاں کرائیں کہ ان کو خوف نہیں ہونا چاہیے‘ ان کے ساتھ پاکستان میں فراخ دلانہ سلوک کیا جائے گا. اس ضمن میں ان کی ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء کی تقریر سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں شائع ہوئی ‘جس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
Mr. Jinnah assured the non-Muslim minorities that if Pakistan was established, they would be treated with fairness, justice and even generosity. This was enjoined upon them by the Quran and this was the lesson of their history had taught them with a few exceptions in which some individuals may have misbehaved."
’’مسٹر جناح نے غیر مسلم اقلیتوں کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان قائم ہو گیا تو اُن کے ساتھ رواداری‘ انصاف اور فیاضی کا سلوک کیا جائے گا. اقلیتوں کو یہ حقوق قرآن نے دیے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخ ان کو یہی سبق سکھاتی ہے ‘ البتہ چند استثنائی صورتوں میں ممکن ہے کہ بعض افراد نے بدسلوکی کی ہو.‘‘
اب اسی کے حوالے سے قائد اعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا صرف ایک جملہ ایسا ہے کہ جسے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں نے سیکولرزم کی بنیاد قرار دے لیا ہے‘ اور جسٹس منیر نے تو اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھ دی ہے. حالانکہ اس جملے کا بھی ۹۵ فیصد حصہ اسلامی ہے‘ صرف ۵فیصد حصہ ایسا ہے جس کی مختلف تعبیرات کی گئی ہیں اور اس سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے . اس خطاب میں انھوں نے کہا تھا:
"You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this State of Pakistan."
’’آپ آزاد ہیں‘ آپ کو اپنے معبدوں میں جانے کی اجازت ہے‘ پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے.‘‘
اوریہ بالکل صحیح ہے کہ اسلامی ریاست میں بھی مذہبی آزادی سب کو ملتی ہے. صرف قریش کا معاملہ خصوصی تھا ‘اور ان کے لیے یہ حکم تھا جو سورۃ التوبۃ کی ابتدائی چھ آیات میں وارد ہوا کہ اگر ایمان نہیں لاؤ گے تو قتل کر دیے جاؤ گے. اس لیے کہ نبی اکرمﷺ خود قرشی تھے اور آپؐ کی قریش کی طرف خصوصی بعثت تھی. بعد میں سب کے لیے یہی اصول تھا کہ اسلام لے آؤ تو ہمارے برابر کے ساتھی ہوگے. ہم یہ بھی دعویٰ نہیں کریں گے کہ ہم سینئر مسلمان ہیں اور تم جونیئر مسلمان ہو ‘ہمارے حقوق زیادہ ہیں اور تمہارے کم. البتہ اگر اسلام نہیں لاتے تو جزیہ دو اور چھوٹے بن کر رہو ‘ لیکن تمہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل رہے گی. اور پوری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ کہیں پر بھی اور کسی ایک شخص کو بھی بالجبر مسلمان نہیں بنایا گیا. ہاں اگر طاقت ہے تو نظام صرف اللہ کا ہو گا‘ دین صرف اللہ کا قائم کیا جائے گا‘اس لیے کہ انسانوں کے لیے اسی نظام میں رحمت ہے‘ سوشل جسٹس ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کے ذریعے نوع انسانی کو عطا کیا ہے. باقی یہ کہ مذہبی آزادی سب کو حاصل ہے . اسی خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا:
" You will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State."
اس میں قائد اعظم نے یہ جو فرمایا ہے کہ ’’مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے‘‘اس وقت پوری دنیا کا اصول یہی ہے. البتہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ مذہب نہیں ہے‘ بلکہ دین ہے اور پوری زندگی کا نظام دیتا ہے‘ اور یہ بات قائد اعظم بھی اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں.اگر قائد کے اس جملے کو ان کی بقیہ تقاریر کی روشنی میں سمجھا جاتا تو غلط فہمی کا امکان پیدا نہ ہوتا. لیکن غلط فہمی بہرحال پیدا ہوئی ہے. یہ کس وجہ سے ہوئی‘ یہ ایک علیحدہ بحث ہے‘ جس میں مَیں اس وقت نہیں جانا چاہتا. لیکن سیکولر حلقے اس کی جو تعبیر کر رہے تھے قائد اعظم نے خود ا س کی نفی کر دی تھی. چنانچہ ۲۵ جنوری۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے دوٹوک انداز میں فرمایا تھا :
"Islamic principles today are as applicable to life as they were thirteen hundred years ago. He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Shariat."
’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے. وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدوّن نہیں کیا جائے گا.‘‘
یعنی جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کے مطابق نہیں بنے گا وہ فتنہ پرور اور شرارتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں. قائدا عظم کے حوالے سے مزید جان لیجیے کہ ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسرڈاکٹر ریاض علی شاہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اور قائد اعظم نے ان سے فرمایا:
’’تم جانتے ہو کہ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے‘ تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خداؐ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا. اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے.‘‘
میں خود یہ کہتا ہوں کہ اس سے پہلے تک میرے دل میں قائد اعظم کی عظمت بھی تھی‘ جذبہ ٔشکر بھی تھا‘ لیکن محبت نہیں تھی. ۱۱؍ستمبر ۱۹۸۸ء کے روزنامہ جنگ میں مذکورہ بالا الفاظ دیکھ کر ان سے محبت بھی پیدا ہو گئی. دیکھئے اس شخص کے اندر کس قدر جذبہ تھا! معلوم ہوا کہ قائد اعظم کے علم میں وہ احادیث بھی تھیں جن میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قیامت سے قبل پوری دنیا میں نظامِ خلافت قائم ہو گا او ر اُمت محمدﷺ کی حکومت قائم ہو گی. ابھی توحالات خراب سے خراب تر ہوں گے‘ مزید آزمائشیں آئیں گی ع ’’اور کچھ روز فضاؤں سے لہو برسے گا!‘‘لیکن آخر کار حالات بدلیں گے.
اس اعتبار سے ایک ذرا دلچسپ اقتباس بھی ملاحظہ فرما لیں. ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کی پارلیمنٹ کا ایک دس رکنی وفد ہندوستان آیاتھا‘ جس کے چیئرمین رابرٹ رچرڈ تھے. اس وفد کے ایک رکن مسٹر سورن سن‘ (Sorenson) نے واپس جا کر ’’My Impression of India‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں وہ قائد اعظم کے بارے میں لکھتا ہے:
"Mr. Jinnah is the sword of Islam resting in a secular scabbard."
یعنی مسٹر جناح اسلام کی تلوار ہیں‘ البتہ جس نیام میں وہ تلوار ہے اس میں سیکولر رنگ موجود ہے. اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ وضع قطع میں مولوی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں میں مشہور اور مقبول ہونے کے لیے کوئی مصنوعی لبادہ اوڑھا. یہ ان کی شخصیت کا بہت اہم حصہ ہے. وہ اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے. بہرحال قائد اعظم نے پاکستان بنایا اور ان کے دست راست لیاقت علی خان نے ان کے انتقال کے چند ہی ماہ بعد دستور ساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصد منظور کرا کے پاکستان میں نظامِ خلافت کی بنیاد قائم کر دی‘ جو اَب ہمارے دستور کا آرٹیکل 2Aہے. اس میں تسلیم کیا گیا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور خلافت انسانوں کی ‘ خاص طور پر مسلمانوں کی جو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں . حاکم ِمطلق اللہ تعالیٰ ہے‘ رسول اکرمﷺ اس کے نمائندے ہیں. قرآن و حدیث میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا جو حکم آ گیا وہ تو واجب التعمیل اور واجب الاطاعت ہے‘ اس سے آپ اِدھر اُدھر نہیں جا سکتے‘ البتہ باقی معاملات قرآن و حدیث کے دائرے کے اندر اندر ’’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘‘ کے اصول کے تحت باہمی مشورے سے طے کیے جائیں گے. یہ خلافت ہے.ہمارے پاس جو اختیارات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس امانت ہیں جو انہی حدود کے اندر اندر استعمال کیے جائیں گے جو قرآن اور سنت میں معین کر دیے گئے ہیں.یہ ایک آرٹیکل درحقیقت دستور کے اندر خلافت کی بنیاد کے قیام کے لیے کافی تھا‘ بشرطیکہ اس میں اس ایک جملے کا اضافہ کر دیا جاتا:
"It will take precedence over whole of the constitution"
یعنی’’یہ دفعہ پورے دستور پر حاوی رہے گی.‘‘
اس صورت میں پھر اس کے بعد کسی دفعہ۲۲۷ کی ضرورت نہیں تھی‘ بلکہ اس کے مطابق پورے کا پورا دستور اسلامی بن جاتا.