البتہ ایمان بالآخرۃ‘ جس کا اصل جوہر اور اصل مآل جزائے اعمال یا مکافاتِ عمل ہے‘ یعنی یہ کہ انسان کے اعمال و افعال بے نتیجہ نہیں رہیں گے‘ بلکہ نیکی اور بدی کا بھرپور بدلہ مل کر رہے گا‘ تو اس کا ذکر یہاں نہایت بلیغ پیرائے میں موجود ہے. چنانچہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصائح کیں اُن میں سے ایک اہم نصیحت یہ ہے کہ:
یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۶﴾
’’اے میرے بچے! نیکی یا بدی خواہ رائی کے دانے کے برابر ہو‘ اور پھر خواہ کسی چٹان میں چھپ کر کی گئی ہو‘ خواہ فضا کی پہنائیوں میں اور خواہ زمین کے پیٹ میں گھس کر(وہ ضائع نہیں ہوگی) اللہ اس کو لے آئے گا. بے شک اللہ بہت باریک بین‘ بہت باخبر ہے.‘‘
یہی اصل میں ایمان بالآخرۃ کا لبِّ لباب ہے کہ ؏ ’’از مکافاتِ عمل غافل مشو!‘‘ اعمال کا نتیجہ نکل کر رہے گا. لیکن دیکھ لیجیے کہ یہاں یومِ آخر‘ یوم القیامہ‘ جزاء و سزا اور جنت و دوزخ کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے. اس لیے کہ یہ امور وہ ہیں جو صرف نبوت و رسالت کے ذریعے سے معلوم ہوسکتے ہیں. گویا یہاں ایمان بالآخرۃ کا بھی وہی پہلو مذکور ہے جس کا تعلق حکمت و دانائی سے ہے اور جس تک رسائی وحی‘ نبوت اور رسالت کے بغیر بھی صرف فطرتِ صحیحہ اور عقلِ سلیم کی رہنمائی میں ہوسکتی ہے!