واقعہ یہ ہے کہ حکمت کی اصل اساس یہ ہے کہ قلبِ انسانی میں خالق اور ربّ کی جو معرفت ودیعت شدہ لیکن خوابیدہ حالت میں ہے ‘انسان اس کی جوت کو اپنے قلب و ذہن میں جگا لے. گویا فطرت کی صحت اورفکر کی سلامتی کا لازمی نتیجہ ’’شکر‘‘ ہے. اورسلامتیٔ عقل اور درستی ٔ فکر و نظر کا حاصل یہ ہے کہ انسان اپنے پروردگارِ حقیقی کو پہچان لے. بالفاظِ دیگر حکمت کا لازمی تقاضا ہے کہ یہ جذبۂ شکر اپنے اصل مالک ‘آقا‘ پالن ہار اور پروردگار کی ذات پر مرتکز ہوجائے. پھر یہی شکرِ الٰہی اس امر کو‘ مستلزم ہے کہ ایسا انسان شرک سے بالکلیہ اجتناب اور توحید کا التزام کرے. لہذا لقمان حکیم نے ‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی اور حکمت عطا کی تھی‘ اپنی فطرتِ صحیحہ اور عقلِ سلیم کی روشنی میں ’’توحید‘‘ کی معرفت اور جذبۂ شکر سے سرشار ہونے کی سعادت حاصل کی. اسی لیے وہ اپنے بیٹے کو نہایت ہی دلنشین اور پیار بھرے انداز میں نصیحت کرتے ہیں کہ: یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ ’’اے میرے پیارے بچے! دیکھنا کہیں اللہ کے ساتھ (اُس کی ذات و صفات میں) کسی کو شریک نہ ٹھہرا لینا. یقینا شرک بہت بڑا ظلم اور بہت بڑی ناانصافی ہے‘‘.