’’اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ‘‘ سے ایک اور رہنمائی یہ ملتی ہے کہ ہمارا تشخص اور پہچان صرف ’’اسلام‘‘ ہی ہونا چاہیے. لیکن ہمارا المیہ ہے کہ اُمت میں جو دعوت بھی اٹھی‘ اس کے داعی نے ابتداء ً تو تفرقے کی مذمت کرتے ہوئے خالصتاً اسلام کی دعوت دی‘ لیکن بعد میں دعوت قبول کرنے والوں نے ایک فرقے کی شکل اختیار کر لی اور مسلمانوں سے جدا ہو گئے اور ان کا ایک علیحدہ تشخص قائم ہو گیا. گویا دعوتِ دین کے لیے اس بڑی احتیاط کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے کہ جو شخص بھی اس راہ میں قدم بڑھائے‘ جو بھی دعوت الی اللہ کی ذمہ داری اٹھائے اور انبیاء و رُسل کے اس حق امانت کو ادا کرنے کے لیے آگے آئے‘اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنا کوئی جداگانہ تشخص قائم نہ کرے‘ مسلمانوں سے کٹ نہ جائے اور مسلمانوں سے کوئی علیحدہ حیثیت اختیار نہ کرے‘ بلکہ جہاں تک ہو سکے شعوری طور پر اس کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح مسلمانوں کے ساتھ identifyکرے. ’’اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ‘‘ میں ہمارے لیے یہ رہنمائی بھی موجود ہے کہ مختلف مسالک اور فرقوں کی طرف بلانا دعوت الی اللہ نہیں. دعوت الی اللہ صرف یہ ہے کہ اللہ کی بندگی‘ اس کی کامل اطاعت‘ اس سے انتہائی محبت اور اس کی معرفت سے اپنا وجود منور کرو اور اپنے قلوب و اذہان میں اجالا کرو اور اسی کی یاد سے دلوں کو راحت و سکون آشنا کرو. ازروئے الفاظِ قرآنی : اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾ (الرعد) وہی تمہارا مطلوب و مقصود بن جائے‘ اسی کی رضاجوئی تمہاری زندگی کانصب العین ہو‘ تمہارا جینا اور مرنا‘ تمہارا جاگنا اور سونا صرف اسی کے لیے ہو جائے. جیسے قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا: اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) . اس سے تمہارا وہ تعلق قائم ہو جائے کہ تم اگر کسی سے محبت کرو تو صرف اسی کے لیے‘ کسی سے نفرت رکھو تو اسی کے لیے. اسی کو دو جس کو دینے کا اس نے حکم دیا اور کسی سے روکو تو اس لیے کہ اس کو نہ دینا اللہ کو پسند ہے. یہ وہ بات ہے جورسول اللہﷺ نے بایں الفاظ ارشاد فرمائی:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۱)
’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی ‘اور اللہ کے لیے دشمنی رکھی‘ اور اللہ کے لیے کسی کو دیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے ایمان کی تکمیل کر لی‘‘.