اس کے بعد فرمایا: وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ ’’اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے مگر وہی لوگ جنہوں نے صبر کیا‘‘.یعنی صرف وہ لوگ اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں جن میں تحمل و برداشت اور صبر کا بڑا ظرف ہوتا ہے‘ جو جھیل سکتے ہیں‘ جو اپنے نفس کے اندر اٹھنے والے طوفان کو روک سکتے ہیں اور جو فی الواقع صبر کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں. وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾ ’’اور نہیں پہنچ پاتے اس مقام اور مرتبے کو مگر وہی جو بڑے نصیب والے ہیں‘‘.جن کا نصیبہ بڑا یاور ہے‘ جو بخت آور ہیں. یہی وہ مقام ہے اور یہی وہ الفاظ ہیں جن کے حوالے سے میں نے عرض کیا تھا کہ اس مقام کو اگر ’’حَظِّ عَظِیم‘‘ سے تعبیر کیا جائے تونہایت بہتر ہو گا‘کیونکہ یہ خود اِن الفاظ کا ایک تقاضا ہے. اور اگر دوسرے مقامات کے ساتھ ربط و تعلق کے حوالے سے اسے ’’مرتبۂ ولایت‘‘ سے تعبیر کیا جائے تو بھی یقینادرست ہے.