اب اس کفرِ حقیقی و معنوی کی بھی دو کیفیات ہو سکتی ہیں. ایک تو یہ کہ کوئی شخص ایمانِ حقیقی کے لوازم یعنی اللہ کی ہستی اور توحید کے یقین‘ اُس کے ساتھ خلوص و اخلاص کے تعلق‘ آخرت کے یقین اور اُخروی فلاح کے حصول کے جذبے سے تو قطعاً محروم ہو لیکن کسی دوسرے جذبے یا سبب سے کوئی نیکی‘ کوئی بھلائی اور کسی نہ کسی نوع کا رفاہِ عام اور خدمت ِ خلق کا کام کر رہا ہو‘ جیسے کسی نے کوئی یتیم خانہ کھلوا دیا ہو‘ یا کوئی کنواں کھدوا دیا ہو‘ یا کوئی شفا خانہ اور ہسپتال بنوا دیا ہو‘ یا رفاہی مقاصد کے لیے کوئی فاؤنڈیشن قائم کر دی ہو یا کوئی خیراتی ادارہ قائم کر دیا ہو. اگر یہ سارے کام اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی فوز و فلاح کے حصول کے جذبے کے سوا کسی اور جذبۂ محرکہ کے تحت صادر ہو رہے ہیں تو ان اعمال کی حقیقت پہلی تمثیل میں بیان ہوئی ہے ‘ یعنی:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ
’’اور جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے دشتِ بے آب میں سراب جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے‘‘.
یہ ایک نہایت فصیح و بلیغ تمثیل ہے‘ اس لیے کہ دنیا بھر میں یہ بات معروف و معلوم ہے کہ ایک لق و دق صحرا‘ ایک چٹیل میدان اور وسیع و عریض ریگستان میں ریت کا ایک حصہ اس طرح چمکتا ہے کہ دُور سے دیکھنے والے کو وہ پانی نظر آتا ہے اور پیاسا اسے پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑتا اور لپکتا ہے. یہاں ’’ظمآن‘‘کا لفظ ’’فعلان‘‘ کے وزن پر آیا ہے. اسی وزن پر ’’رحمان‘‘ آتا ہے‘ یعنی وہ ہستی جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند ہو. چنانچہ ’’ظمآن‘‘ کے معنی ہوں گے وہ شخص جو پیاس سے مرا جا رہا ہو. اسے ریگستان میں دُور سے پانی نظر آرہا ہے .اگرچہ وہ پانی نہیں ہے‘ محض سراب ہے‘ لیکن وہ اسے پانی سمجھ کر جس طرح بھی ہو گھسٹتا ہوا‘ سسکتا ہوا وہاں پہنچتا ہے‘ لیکن وہاں یہ صورت پیش آتی ہے کہ :
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا
’’یہاں تک کہ جب وہ اس (سراب) کے پاس پہنچتا ہے تو نہیں پاتا اسے کچھ بھی‘‘.
اس کی حسرت کا اندازہ کیجیے کہ وہ گھسٹتا ہوا‘ سسکتا ہوا پانی کی اُمید میں وہاں پہنچتا ہے تو اس کو پانی نہیں ملتا ‘جبکہ وہ وہاں موت کواپنا منتظر پاتا ہے. اور موت کیا ہے؟ وہ تو درحقیقت ’’شاہدرہ‘‘ ہے جس سے گذرنے کے بعد اسے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے‘ لہذا فرمایا:
وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ
’’اور وہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے‘ پس وہ اس کا حساب چکا دیتا ہے‘‘.
آیت کے اس پورے حصے کا جس کا ہم نے اب تک مطالعہ کیا ہے‘ مطلب و مفہوم یہ ہے کہ ایسا شخص جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوگا تو اس کو تو گمان ہوگا کہ میں نے دنیا میں بڑے نیک کام کیے تھے‘ میں نے خیراتی ادارے قائم کیے تھے‘ میں نے فاؤنڈیشن قائم کیے تھے‘ میں نے یتیم خانے‘ شفاخانے اور ہسپتال بنوائے تھے اور متعدد رفاہِ عام کے کام کیے تھے‘ میں نے ان اداروں کی بلا معاوضہ اعزازی طور پر بے شمار خدمات انجام دی تھیں. لہذا اسے ان اعمال پر بہت کچھ تکیہ ہوگا‘ ان کا سہارا ہوگا ‘لیکن جیسے ریگستان میں دُور سے چمکتی ہوئی ریت پیاسے کو پانی نظر آتی ہے‘ حالانکہ وہ سراب کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘ ایسے ہی جب ایسا شخص عدالتِ خداوندی میں محاسبہ کے لیے کھڑا ہوگا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ چونکہ ان اعمال کی بنیادایمان پر نہ تھی‘ بلکہ وہ نورِ ایمان سے خالی اور محض ریاکاری کے جذبے کے تحت شہرت اور ناموری کے حصول کے لیے یا کسی دُنیوی منفعت اور مصلحت کے تحت یعنی انکم ٹیکس بچانے کے لیے یا الیکشن میں ووٹ لینے کے لیے یا سرکار دربار میں رسائی و پذیرائی کے لیے کیے گئے تھے‘ لہذا ان کی آخرت میں کوئی وقعت نہیں ‘بلکہ وہاں ان کی حیثیت کھوٹے سکّوں کی ہوگی. گویا یہ تمام اعمال وہاں سراب ثابت ہوں گے. جیسے دُور سے چمکتی ہوئی ریت پانی نظر آتی ہے جبکہ حقیقت میں پانی موجود نہیں ہوتا‘ ویسے ہی ان کے یہ اعمال جو ظاہری صورت کے اعتبار سے نیکی اور خیر کے اعمال نظر آتے ہیں‘ آخرت میں لاحاصل اور بے نتیجہ رہیں گے اور اللہ ان کا حساب چکا دے گا. اور اس کی شان یہ ہے کہ:
وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾
’’اور اللہ جلد حساب چکا نے والا ہے‘‘.
اُس کو حساب چکانے میں کوئی دیر نہیں لگتی. واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ’’الحسیب‘‘ بھی ہے. وہ قیامت کے دن ہر انسان کی دُنیوی زندگی کے تمام اعمال ہی نہیں بلکہ اس کی نیتوں‘ اس کے ارادوں اور اس کے محرکات ِ عمل کا بھی پورا حساب لے گا. اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی جمع تفریق کی ضرورت نہیں ہوگی جو ہمیں ہوتی ہے. اس کے کمپیوٹرز کا کوئی تصور انسان کر ہی نہیں سکتا. سورۃ الکہف میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب اعمال نامہ سامنے آئے گا تو مجرم لرز اٹھیں گے اور کہیں گے:
یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ (الکہف:۴۹)
’’ہائے ہماری شامت! یہ اعمال نامہ کیسا ہے کہ اس نے کسی چھوٹی بڑی چیز کو چھوڑا ہی نہیں کہ جس کا احاطہ نہ کر لیا ہو!‘‘
اس میں تو باریک ترین تفصیلات کو بھی نہیں چھوڑا گیا‘ چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی سے معمولی بات بھی اس میں موجود ہے اور یہ بڑی سے بڑی بات کابھی احاطہ کیے ہوئے ہے. یہی بات سورۃ الزلزال میں فرمائی گئی ہے:
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾ ’’پس جو کسی کوئی ذرّے کے ہم وزن نیکی کرے گااسے دیکھ لے گا (اپنے سامنے موجود پائے گا)اور جو کوئی کسی ذرّے کے ہم وزن بدی کمائے گا تو اسے بھی دیکھ لے گا‘‘.
یاد ہوگا کہ اس سلسلۂ دروس کے درس دوم یعنی آیۂ بِرّ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حقیقی نیکی کیاہے:
وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ
’’بلکہ حقیقی نیکی اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر‘ یومِ آخر پر‘ فرشتوں پر‘ کتابوں پر اور نبیوں پر.‘‘
گویا کوئی عمل جس کی بنیاد میں ایمان نہیں ہے وہ حقیقتاً نیکی نہیں ہے چاہے بظاہر وہ نیکی کا کتنا ہی بڑا عمل نظر آتا ہو‘ حتیٰ کہ نماز‘ روزہ اور صدقہ و خیرات تک کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر ان کا مقصد ریاکاری ہو اور یہ کام شہرت کے حصول یا لوگوں پر اپنی دین داری کی دھونس جمانے کے لیے کیے جائیں تو عین شرک قرار پائیں گے. آپﷺ کا فرمانِ مبارک ہے:
مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ
’’جس نے نماز پڑھی دکھاوے کے لیے وہ شرک کر چکا‘ جس نے روزہ رکھا دکھاوے کے لیے وہ شرک کر چکا‘ اور جس نے صدقہ و خیرات کیا دکھاوے کے لیے وہ شرک کر چکا.‘‘
یعنی اگر اعمال کی بنیاد ایمانِ حقیقی پر ہے اور وہ خالصتاً اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی جزا طلبی کے جذبے کے تحت صادر ہو رہے ہیں تب تو وہ واقعتا نیکی قرار پائیں گے اور موجب ِ اجر و ثواب ہوں گے‘ بصورتِ دیگر اُن کی حیثیت محض سراب کی سی ہے.
قرآن مجید میں دو اور مقامات پر بھی یہ مضمون دو نہایت حسین و جمیل تمثیلوں کے پیرائے میں بیان ہوا ہے. چنانچہ ایک تو سورۃ النور کے فوراً بعد سورۃ الفرقان میں ارشادہوتا ہے:
وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾
’’اور (جنہیں یہ لوگ بڑے بڑے عمل سمجھ رہے ہیں اور جن پرانہوں نے تکیہ کیا ہوا ہے) ہم (قیامت کے دن) اُن کے اِن اعمال کی طرف بڑھیں گے اور انہیں غبار کی طرح (ہوا میں) اڑا دیں گے‘‘.
بلاتشبیہ نقشہ بالکل وہی ہوگا جیسے ٹھوکر مار کر کسی چیز کو مشت ِ غبار کی صورت ہوا میں اڑا دیاجاتا ہے. اس لیے کہ اُن کے اعمال کی بنیاد ایمان پرنہ تھی اور وہ خالصتاً اللہ کے لیے نہیں کیے گئے تھے. دوسری تشبیہ سورۂ ابراہیم میں وارد ہوئی ہے: مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ (آیت ۱۸)
’’جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کفر کیا ہے (جنہیں اپنے ربّ پر ایمان میسر نہیں ہے) اُن کے اعمال (نیکیاں)اس راکھ کے مانند ہیں جیسے کسی جھکڑ والے دن تیز ہوا اڑا کر لے جائے ‘‘.
گویا ان کے لیے نہ کوئی جماؤ اور ٹھہراؤ ہے اور نہ ثبات و دوام. آگے ارشاد ہوتا ہے:
لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ ﴿۱۸﴾
’’وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے. یہی پرلے درجے کی گمراہی ہے‘‘.
یعنی جسے وہ اپنی کمائی اور کسب سمجھ رہے ہوں گے اور اس پر اجر و ثواب کی امیدیں لگائے بیٹھے ہوں گے‘ اس میں سے اُن کے ہاتھ کچھ بھی نہ آ سکے گا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ یہی ہے بہت دُور کی گمراہی اورسب سے بڑی محرومی و ناکامی.
الغرض کفر کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ انسان حقیقی ایمان سے محرومی کے باعث خلوص و اخلاص سے توتہی دست وتہی دامن ہو لیکن مضطرب ضمیر کے لیے جھوٹا اطمینان فراہم کرنے کی غرض سے ‘یا شہرت و عزت کے حصول کی خاطر یا کسی اور دُنیوی منفعت ومصلحت کے لیے نیکی کے کام سر انجام دے رہا ہو تو آیت زیرِ درس کی رو سے ایسی نیکیاں اور اس قسم کے اعمالِ خیر محض سراب کا درجہ رکھتے ہیں.
اس سراب کے دھوکے میں گرفتار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ حقائق سے محجوب ہوتے ہیں اور فکر و نظر کی سطح پر مختلف النوع تاریکیوں اور اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے ہیں. ان لوگوں کو اِن تاریکیوں اور اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانا اُن حضرات کی ذمہ داری ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے نورِ ایمان سے بہرہ ور فرمایا ہو. جیسے سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول جناب محمدﷺ کے متعلق ارشادفرمایا:
ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (آیت ۹)
’’وہی ہے (اللہ) جو اپنے بندے (ﷺ ) پر (قرآن مجید کی) روشن آیات نازل فرماتا ہے‘ تاکہ وہ تمہیں (کفر و ناشکری کے) اندھیروں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لے آئے‘‘.
اب جن کی بھی آنکھیں کھل گئی ہوں اور جن کو بھی نورِ ایمان کی کوئی رمق میسر آ گئی ہو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ابنائے نوع کو ایمانِ حقیقی کی دعوت دیں‘ جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (۱) ’’تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک (حقیقی) مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جسے وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘.
لہذا اگر ایمانِ حقیقی کی روشنی کسی کو میسر آ گئی ہے تو اس کو عام کرنا اور اسے زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے اور یہ کام اس پر واجب اور فرض ہے!