اگلی دو آیات (۹‘۱۰) میں پھر ایمان بالآخرت کا بیان ہے. اس سے قبل آیت۷ میں بھی ایمان بالآخرت کے اوّلین اور اہم ترین جزو یعنی بعث بعد الموت کا اثبات نہایت پُر زور انداز میں ہو گیا ہے. اب ان دو آیات میں اوّلاً آخرت کی اصل حقیقت اجمالاً بیان کی گئی ‘ یعنی قیامت کا دن ہی ہار اور جیت‘ اور کامیابی و ناکامی کے اصل فیصلے کا دن ہے. جو اُس دن کامیاب قرار پائے گا وہی حقیقتاً کامیاب ہوگا اور جو اُس روز ناکام قرار دے دیا گیا وہی اصلاً ناکام ہو گیا. گویا جو اُس دن جیتا وہی جیتا اور جو اُس دن ہارا وہی ہارا! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ ’’وہ دن کہ جس دن وہ (اللہ) تمہیں جمع کرے گا جمع ہونے کے دن (یعنی یوم قیامت) ‘وہی ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا اصل دن‘‘ ’’تغابن‘‘ بنا ہے لفظ ’’غبن‘‘ سے. غبن کا لفظ ہمارے یہاں اردو میں بھی مستعمل ہے‘ یعنی کسی کو نقصان پہنچانا‘ کسی کا مال دبا لینا‘ مالک کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال میں تصرف کر لینا‘ یہ تمام مفاہیم لفظ غبن میں شامل ہیں. لیکن جب یہ لفظ باب تفاعل میں ’’تغابن‘‘ کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس میں مزید بہت سے معانی و مطالب شامل ہو جاتے ہیں. ’’تغابن‘‘ کا لفظ اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو اِس دنیا کے جملہ معاملات میں معلوم و معروف ہے. یعنی یہ کہ اس دنیا میں جو باہمی معاملات ہوتے ہیں ان میں ہر فریق چاہتا ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے یا بالفاظِ دیگر دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے. دکان دار چاہے گا کہ گاہک سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرے‘ جبکہ خریدار کی خواہش ہوگی کہ اسے داموں میں زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل ہو. اسی طرح کاروبارِ دنیا کے ہر شعبے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے. پس ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ زک پہنچانے کی کوشش کا نام ہے ’’تغابن‘‘.
اس تغابن کا ایک ظہور تو دُنیوی معاملات میں ہر آن ہو رہا ہے کہ کسی کی جیت ہو رہی ہے اور کسی کی ہار‘ اور کسی کو نفع حاصل ہو رہا ہے اور کسی کو نقصان. لیکن اس دنیا کی ہار جیت بھی عارضی ہے اور نفع نقصان بھی عارضی ہے. ہار جیت کے فیصلے کا اصل دن یومِ قیامت ہے‘ اس لیے کہ اس دن کی جیت بھی ابدی ہوگی اور ہار بھی دائمی ہوگی ‘اور نفع بھی مستقل ہوگا اور نقصان بھی دائمی ہوگا. اس کے لیے یہاں فرمایاگیا: ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ کہ اصل میں تو وہاں جا کر کھلے گا کہ کون کیا تھا اور کس کی حقیقت کیا تھی! اور کون بامراد ہوا اور کون نامراد! اور ہار کس کی ہوئی اور جیت کس کی! رہی اس دنیا کی ہار جیت اور کامیابی و ناکامی‘ تو یہ سب عارضی اور فانی ہیں. اصل تختۂ واصل باقی ‘یعنی اصل بیلنس شیٹ تو قیامت کے روز سامنے آئے گی!
آگے اسی ہار جیت اور کامیابی و ناکامی کی تفصیل بیان ہوئی ہے:
وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾
’’اور جو اللہ پر ایمان رکھے گا اور عمل کرے گا بھلے اور درست اللہ اس سے اس کی برائیوں کو دور فرما دے گا اور داخل کرے گا اسے ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے. یہی ہے بڑی اور اصل کامیابی‘‘.
یہ جیت کی شرح ہو گئی‘ یعنی جنت میں داخلہ اور ہمیشہ کا خلود! گویا یہ ہے مستقل ‘ واقعی اور حقیقی جیت! اس کے برعکس ہار کیا ہے؟ اسے آیت ۱۰ میں واضح فرما دیا گیا:
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۱۰﴾
’’اور جن لوگوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ آگ والے ہیں‘ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘.
اس موقع پر ایک اور ضروری بات بھی سمجھ لینی چاہیے. وہ یہ کہ قرآن مجید میں جہاں کفر اور تکذیب دونوں جرائم کا ذکر ساتھ ساتھ ہوتا ہے وہاں کفر اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی معرفت کی جو شہادتیں انسان کی اپنی فطرت اور اس کے اپنے باطن میں مضمر ہیں‘ انسان ان کو دبا دے‘ چھپا دے اور انہیں بروئے کار نہ آنے دے. اور تکذیب اس کے اوپر دہرا جرم ہے کہ جب رسول آئے‘ کتاب اتری‘ اور نورِ وحی نے حق کو بالکل روشن اور مبرہن کر دیا تو اس نے اسے جھٹلا دیا. اس طرح دو جرم جمع ہو گئے. گویا کفر اور تکذیب بالکل ہم معنیٰ نہیں ہیں‘ بلکہ سورۃ النور کی آیت ۴۰ میں وارد الفاظ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ کے مصداق ظلم پر مزید ظلم اور ایک جرم پر دوسرے جرم کے اضافے کے مترادف ہیں.