الغرض اگر کسی انسان کے دل میں ایمانِ حقیقی راسخ ہو جائے اور اس سے اس کا باطن منور ہو جائے تو اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت میں ایک تغیر اور انقلاب واقع ہو جاتا ہے‘جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا : ؎ چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود
حضرت علامہ نے تو یہ بات قرآن مجید کے بارے میں کہی ہے‘ لیکن چونکہ قرآن منبعِ ایمان ہے‘ لہذا یہی بات ایمان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ جب ایمان انسان کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے تو اس کے باطن میں ایک انقلاب آجاتا ہے‘اس کی سوچ بدل جاتی ہے‘ اس کا نقطۂ نظر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اس کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے‘ اس کی اَقدار تبدیل ہو جاتی ہیں. الغرض اس کی پوری سیرت و شخصیت‘ اس کاہر فعل و عمل‘ اس کی پسند و ناپسندکا معیاراور اس کی سعی و جُہد کا رُخ سب بدل کر رہ جاتے ہیں‘اور فی الواقع ایک بالکل نیا انسان وجود میں آجاتا ہے. علامہ اقبال کے محولہ بالا شعر کا دوسرا مصرع بہت معنی خیز بلکہ ذو معنی ہے‘ اس لیے کہ اس میں جہاں ایک جانب اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان میں یہ باطنی تبدیلی آجاتی ہے تو اس کے لیے تو کُل جہاں ہی تبدیل ہو جاتا ہے‘ وہاں اس عظیم حقیقت کی جانب بھی راہنمائی موجود ہے کہ افرادِ نوعِ انسانی کا یہ باطنی انقلاب ہی ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بنتاہے!
سورۃ التغابن کی جو پانچ آیات اس وقت زیر مطالعہ ہیں‘ اِن میں اللہ تعالیٰ نے نہایت معجز نما اسلوب میں ان پانچ بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کر دی ہے جو ایمان کے نتیجے میں انسان کے نقطۂ نظر ‘اس کے اندازِ فکر اور اس کے عملی رویے اور روش میں نمایاں اور ظاہر ہو جانی چاہئیں. اس طرح ان آیات کے ذریعے ہمیں ایک کسوٹی مہیا ہو جاتی ہے جس پر اپنے ایمان کو پرکھ سکیں. چنانچہ اگر یہ اثرات و ثمرات ہماری شخصیتوں میں ظاہر ہو گئے ہوں تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ ایمانِ حقیقی کا نور ہمارے دلوں میں موجود ہے‘ اور اگر یہ ظاہر نہیں ہو رہے ہیں تو گویا یہ ایک تنبیہہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہیں ایمانِ حقیقی کی روشنی سے محروم تو نہیں ہیں!
ایمان کے پانچ اساسی ثمرات کا بیان ان آیات ِ مبارکہ میں جس حکیمانہ ترتیب کے ساتھ ہوا ہے اس کے صحیح فہم و شعور کے لیے پہلے اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ اوّلاً ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں انسانی معاشرے کی مکمل اکائی کا درجہ رکھتا ہے‘ اور ثانیاً اس کا اپنے معاشرے اور ماحول کے ساتھ گہرا ربط و تعلق ہوتا ہے. پھر ایک فرد کی حیثیت سے بھی انسان کی شخصیت کے دو رُخ ہیں. یعنی ایک تو وہ خارجی حالات و واقعات اور تغیرات و حوادث ہیں جو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دوسرے وہ افعال و اعمال ہیں جو اس کے اعضاء و جوارح اور فی الجملہ پورے وجود سے ’’صادر‘‘ ہوتے ہیں. اسی طرح ہر فرد اپنے گردوپیش اور معاشرے و ماحول سے دو قسم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے‘ ایک علائقِ دُنیوی اور دوسرے مال و اسبابِ دُنیوی‘ جنہیں علامہ اقبال مرحوم نے نہایت خوبصورتی سے اس شعر میں سمو دیا ہے کہ: ؎
یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں‘ لا الٰہ الاّ اللہ!
پھر دو آیات میں انسان سے صادر ہونے والے اعمال و افعا ل کے ضمن میں دوپہلوؤں سے ایمان کے اثرات کا بیان ہے اور آخری دو آیات میں ’’مال ودولتِ دنیا‘‘ اور ’’رشتہ و پیوند ِ دُنیوی‘‘ کے ضمن میں ایک مؤمن کے نقطۂ نظر کو واضح کیاگیا ہے.