فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۱۸﴾ ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہارے امکان میں ہو اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو‘ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے‘ اور جو کوئی اپنے جی کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی ہوں گے جو آخری منزلِ مراد کو پہنچ سکیں گے. اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو تو وہ اسے تمہارے لیے دوگنا کرتا رہے گا اور تمہاری بخشش فرمائے گا‘ اور اللہ قدر دان بھی ہے نہایت علم والا بھی ہے. وہ کھلے اور چھپے سب کا جاننے والا ہے‘ زبردست‘ صاحبِ حکمتِ کاملہ ہے!‘‘
جیسے اس سورۂ مبارکہ کی ابتدائی سات آیات میں ایمان کے بنیادی اجزاء کا بیان تھا اور پھر کلمہ ’’ف‘‘ سے پُرزور پیرائے میں دعوتِ ایمانی شروع ہوئی تھی‘ اسی طرح دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ایمان کے ثمرات و مضمرات کا بیان تھا اور اب پھر کلمہ ’’ف‘‘ ہی سے دعوتِ عمل شروع ہوتی ہے اور اس کے ضمن میں تھوڑا ساغور کرنے پر ایک نہایت حسین ربط نظرآتا ہے کہ ایمانیات میں اوّلین ایمان ہے ایمان باللہ. لہذا یہاں عمل کی دعوت اس بات سے شروع ہوئی کہ : فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا بھی تمہاری حدِ استطاعت میں ہے‘‘ گویا ایمان باللہ کا عملی تقاضا یہ ہے کہ انسان میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہو جائے‘ اور تقویٰ بھی تھوڑا بہت نہیں‘ بلکہ امکانی حد تک‘ مقدور بھر. ایمان کے بیان میں دوسرے نمبر پر ذکر تھا ایمان بالرسالت کا‘ لہذا یہاں ایمان کا دوسرا عملی تقاضا بیان ہوا ’’سمع و طاعت‘‘ کے حوالے سے ‘جس کا نقطۂ آغاز عملی اعتبار سے رسول اللہﷺ کی ذات و شخصیت ہے. آخر میں ذکر تھا ایمان بالآخرت کا ‘جس کا اہم ترین عملی مظہر انفاق فی سبیل اللہ ہے‘ لہذا تیسرے نمبر پرذکر ہوا انفاق اور اللہ کو قرضِ حسن دینے کا!