تقویٰ کے تاکیدی حکم کے بعد اس آیت میں دوسری بات فرمائی : وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ’’اور سنو اور اطاعت کرو‘‘. اس سمع و طاعت کا تعلق بھی اصلاً تو ایمان باللہ ہی سے ہے‘ لیکن عملاً اس کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے‘ اس لیے کہ اگرچہ مطاعِ حقیقی تو اللہ ہی ہے‘ مگر اللہ کا نمائندہ اور اس کے اِذن سے بالفعل ’’مطاع‘‘ بن کر رسول آتا ہے . جیسے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا گیا: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ (آیت ۸۰) ’’جس نے رسول ؐ کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘ اور: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (آیت۶۴) ’’اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘.رسول کی یہ اطاعت اصلاًمطلوب ہے ’’سمع و طاعت‘‘ کی شان کے ساتھ‘ یعنی بلاچون و چرا اور بلا پس و پیش! اس بات کو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ایک اطاعت تو وہ ہوتی ہے جو آپ کے فہم‘ آپ کی سمجھ اور آپ کی پسند پر منحصر ہے‘ یعنی یہ کہ اگر کوئی حکم آپ کی سمجھ میں آ گیا یا آپ کو پسند آگیا تو آپ نے مان لیا اور اطاعت کی روش اختیار کر لی‘ اور اگر وہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا یا آپ کو اچھا نہ لگا تو آپ نے اطاعت نہیں کی‘ بلکہ لاپروائی اختیار کی. اس رویّے اور طرزِ عمل کا تجزیہ کیجیے تو یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ یہ اطاعت اُس ہستی کی نہیں ہے جو حکم دے رہی ہے‘ بلکہ اپنی روح اور حقیقت کے اعتبار سے اور عقل و منطق کی رُو سے یہ خود اپنی سمجھ یا اپنے جی کی اطاعت ہے‘ اور دونوں صورتوں میں آپ نے یا تو اپنی عقل کی‘ یا اپنے جی کی یا اپنی پسند کی اطاعت کی ہے. اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت تو اس شان کے ساتھ مطلوب ہے کہ جو بھی حکم ملے اس پر سرِ تسلیم خم کر دیا جائے ‘ جو فرمان بھی سامنے آ ئے بجا لایا جائے‘ جس چیز سے بھی روک دیا جائے اس سے رک جایا جائے ! اور اگر ان اوامر و نواہی کی حکمتیں بھی سمجھ میں آ جائیں تب تو کیا ہی کہنے ہیں‘ یہ تو’’نورٌ علیٰ نور‘‘ والی بات ہے‘ لیکن اگر کسی حکم کی غرض و غایت یا حکمت و مصلحت سمجھ میں نہ آئے تب بھی مجرد ’’سمع‘‘ یعنی سن لینے سے ’’طاعت‘‘ یعنی فرماں برداری لازم آ جاتی ہے! عملی اعتبار سے اس ’’سمع و طاعت‘‘ کا نقطۂ آغاز نبیﷺ کی ذات اورشخصیت ہے‘ اس لیے کہ آپؐ ہی کو وحیٔ جلی کے ذریعے وہ حکمت عطا فرمائی گئی جس کی روشنی میں آپؐ نے اللہ کے کلام کی توضیح و تبیین اپنے فرامین و فرمودات کے ذریعے کی اور اس کا عملی نمونہ اپنی سیرت و کردار اور اپنے افعال و اعمال کے ذریعے پیش فرمایا. یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے بارے میں وضاحت کر دی گئی کہ : وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ (النجم) ’’اور وہ (ہمارے رسولؐ ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے. یہ تو ایک وحی ہے جو (ان پر نازل) کی جا رہی ہے‘‘.اسی کی ترجمانی ہے فارسی کے اس شعر میں: ؎
گفتۂ اُو گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود
گویا رسول اللہﷺ کے احکام ان کی خواہشات پر مبنی نہیں ہوتے ‘بلکہ اللہ کی وحی پر مبنی ہوتے ہیں. تمہارا ذہن‘ تمہارا فکر‘ تمہاری عقل اور تمہاری سوچ محدود ہے. ضروری نہیں ہے کہ ہر حکم کی حکمت وعِلّت تمہاری سمجھ میں آ جائے اور ہر حکم کی مصلحت تمہارے فہم کی گرفت میں آسکے. لہذا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ’’سمع و طاعت‘‘ کی شان سے ہو گی‘ اور عقل انسانی کو ہرگز کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ اس پر کسی قسم کی حدودو قیود عائد کرے. البتہ اللہ کے رسولﷺ کے بعد کسی مسلمان ہیئت ِ اجتماعیہ کے سربراہ ‘یعنی کسی حاکم یا امیر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ایسی مطلق اور غیر مشروط اطاعت کا مطالبہ کرے. چنانچہ ایسی ہر ’’اطاعت‘‘ کے ساتھ ’’فی المعروف‘‘ کی قید لازمی ہے. یعنی اب ہر اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے دائرے کے اندر اندر ہو گی‘ جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (۱) یعنی مخلوق میں سے کسی کی بھی اطاعت کسی ایسے معاملے میں نہیں کی جا سکتی جس میں خالق کی معصیت لازم آتی ہو. البتہ ’’فی المعروف‘‘ کی پابندی اور مشاورتِ باہمی کا حق ادا کرنے کے بعد اسلامی معاشرے اور نظمِ جماعت میں درجہ بدرجہ ڈسپلن کی شان ’’سمع و طاعت‘‘ والی ہی ہونی چاہیے ‘تاکہ معاشرہ اور ہیئت ِ اجتماعی پوری طرح منظم اور چاق و چوبند رہے.