ایک بات اور جان لیجیے کہ نمازوں میں ایک تو فرض نمازیں ہیں اور بقیہ نوافل و سنن ہیں.فرض نمازیں تو لازم ہیں‘ ان کو ہر صورت میں ادا کرنا ہے. البتہ ان کی ادائیگی کے لیے خود شریعت ہی نے چند رعایتیں دے رکھی ہیں. مثلاً کوئی عذر ہے تو آپ مسجد میں نہ جائیں‘ نماز گھر میں ادا کر لیں. فرض کیجیے آپ بیمار ہیں تو گھر میں پڑھ لیں ‘ اس سے بھی زیادہ معذور ہیں تو لیٹ کر پڑھ لیں‘ جس میں قیام‘ رکوع‘ قومہ‘ سجدہ‘ جلسہ اور قاعدہ کے لیے اشارات کفایت کریں گے. ایسی رعایتیں خود شریعت نے فراہم کر دی ہیں. لیکن جہاں تک فرض نماز کا قصداً ضائع کر دینا ہے تو اس کے بارے میں جان لیجیے کہ یہ گویا حقیقی وقلبی ایمان کا ضائع کر دینا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہم نے سورۃ المعارج میں دیکھا کہ وہاں اُس مقام پر لفظ ’’الۡمُصَلِّیۡنَ ‘‘ لایا گیا ہے جس مقام پر سورۃ المؤمنون میں ’’الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‘‘ کا لفظ آیا ہے : قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ اور سورۃ المعارج میں فرمایا : اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾ بہرحال اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ تعمیر سیرتِ انسانی کے قرآنی پروگرام کا مرکز و محور‘ اس کا نقطۂ آغاز اور اس کی آخری منزل‘ یہ سب صلوٰۃ پر مبنی ہیں.
انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر کے ضمن میں جو اساسی پروگرام قرآن حکیم ہمیں دیتا ہے ‘ اس کے جزوِ اوّل کے بارے میں‘ جو اس لائحۂ عمل کا اہم ترین جزو ہے‘ ہم نے سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی آیات میں یہ دیکھا کہ دونوں جگہ کامل مطابقت ہے‘ کہ دونوں مقامات پر اوّلاً بھی صلوٰۃ کا ذکر آیا اور اختتام بھی صلوٰۃ پر ہوا. پھر یہ کہ دونوں مقامات پر صلوٰۃ کی محافظت پر بہت زیادہ زور دیا گیا. سورۃ المؤمنون میں خشوع و خضوع کی طرف توجہ دلائی گئی اور سورۃ المعارج میں مداومت کی طرف متوجہ کیا گیا. ان تمام چیزوں کو جمع کر لیا جائے تو اس سے اقامتِ صلوٰۃ کی اصطلاح وجود میں آتی ہے. چنانچہ ہم بعد کی سورتوں میں قرآن حکیم میں اسی اصطلاح کو دیکھتے ہیں‘ مثلاً: ’’اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ اور ’’و الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ ‘‘.
اس پروگرام کے دوسرے اور تیسرے اجزاء (اعراض عن اللّغو اور زکوٰۃ) کے ضمن میں ہمیں دو باتیں نظر آتی ہیں جن کا دونوں سورتوں میں تذکرہ ہو رہا ہے. ان میں ایک تو ترتیب عکسی ہے‘ یعنی سورۃ المؤمنون میں پہلے اعراض عن اللّغو کا ذکر ہے اور بعد میں زکوٰۃ اور تزکیہ کا‘ جبکہ سورۃ المعارج میں پہلے زکوٰۃ اور تزکیہ کا ذکر ہے اور پھر ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالقیامہ کا‘ جس کا اعراض عن اللّغو سے بڑا گہرا تعلق ہے. پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان دونوں اوصاف کے بیان میں دونوں مقامات پر تعبیر کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ قدرے مختلف ہیں اور ان سے ہمیں ان دونوں کی اصل حقیقت اور اصل روح کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے.