تیسرا وصف سورۃ المؤمنون میں یہ بیان ہوا : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ ’’اور وہ لوگ جو زکوٰۃ پر کاربند رہتے ہیں‘‘. میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ جب قرآن مجید میں زکوٰۃ کا ایک اصطلاح کے طور پر ذکر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ فعل اِیۡتَآءَ آتا ہے‘ مثلاً اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ‘ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ ‘ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ‘ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ . لیکن یہاں اسلوب مختلف ہے. یہاں فرمایا گیا : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾. اس میں ایک تو دراصل زکوٰۃ کی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی اور دوسرے یہ کہ ’’فٰعِلُوۡنَ‘‘ فرما کر اس بات کو واضح کیا گیا کہ وہ لوگ یہ عمل مسلسل کرتے رہتے ہیں.
یہاں اس بات کو جان لیجیے کہ زکوٰۃ کا اصل مفہوم اور اس کی بنیادی حقیقت کیا ہے! جیسے ’’ف ل ح‘‘ کے مادے سے ہم نے فلح کا مفہوم سمجھا تھاایسے ہی ’’ز ک ی‘‘ کے حوالے سے ہمیں اس کا اصل مفہوم سمجھنا ہو گا. اسے آپ ایک مالی کے عمل پر قیاس کر کے بخوبی سمجھ سکیں گے جس نے ایک باغیچہ لگایا ہے‘ جس میں کچھ پودے اُس نے خود لگائے ہیں جو پھل دار ہیں‘ یا پھول دار ہیں. لیکن اسی باغیچے میں خود رَو گھاس اور کچھ جھاڑ جھنکاڑ بھی اپنے آپ اُگ آتا ہے اور یہ خود رَو گھاس یا جھاڑ جھنکاڑ اِن پودوں کی نشوونما میں رکاوٹ بنتا ہے. زمین میں جتنی قوتِ نمو ہے اسے اگر یہ خود رَو گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ نہ کھینچ رہے ہوں تو یہ ساری قوتِ نمو اُن پودوں کو ملے گی جو اس مالی نے خود لگائے ہیں‘ ورنہ یہ گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ بھی اس میں سے اپنا حصہ وصول کریں گے. اسی طرح ہو سکتا ہے کہ یہ خود رَو چیزیں ان پودوں کے لیے ہوا کی آکسیجن اور سورج کی تمازت حاصل کرنے سے رکاوٹ بن رہی ہوں. لہذا مالی اپنے کھرپے کے ذریعے سے‘ جو ہر وقت اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘ اس باغیچہ کے اندر سے تمام خودرَو گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ کو علیحدہ کر دے گا. مالی کا یہ عمل ’’تزکیہ‘‘ ہے. چنانچہ اس کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ کسی شے کی نشوونما میں جو رکاوٹ ہو اس کو دور کر دینا تزکیہ ہے.
اب اس بات کو جان لیجیے کہ ہر انسان‘ ہر فردِ نوعِ بشر اللہ تعالیٰ کی کیاری کا ایک پودا ہے جو اُس نے لگایا ہے. چنانچہ اللہ چاہتا ہے کہ یہ پروان چڑھے‘ پھلے پھولے‘ اس میں جو استعداد ات اللہ نے ودیعت کی ہیں وہ پورے طور پر بروئے کار آئیں اور نشوونما پائیں. اس طرح انسان اپنے اس اصل مقام کو حاصل کر لے جس کے لیے اللہ نے اسے بالقوۃ (potentially) تخلیق فرمایا ہے. لیکن کچھ چیزیں اس کی اس نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہیں. ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق ان تمام چیزوں کو جمع کریں گے تو وہ ہے دنیا کی محبت. چنانچہ آپ قرآن مجید میں بار بار دیکھیں گے کہ جہاں انسان کی گمراہی اور بے راہ روی کے اصل سبب کی تشخیص ہوتی ہے وہاں عموماً یہ بات آئے گی: بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ (الاعلٰی) ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی‘‘. کہیں فرمایا جاتا ہے : کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾ ’’ہرگز نہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ تم عاجلہ (دنیا کی زندگی) سے محبت کرتے ہو‘ اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘.ہم سورۃالقیامۃ کے درس میں ان آیات کا مطالعہ کر چکے ہیں کہ تمہاری گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ تمہارے دل حبِّ عاجلہ میں گرفتار ہو گئے ہیں اور تم آخرت کو نظر انداز کرتے ہو. اور عاجلہ سے مراد یہ دنیا ہے.
اب ذرا ایک قدم اور آگے آیئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حبِّ دُنیا کا سب سے بڑا نشان‘ اس کی سب سے بڑی علامت (symbol) حبِّ مال ہے. سورۃ الفجر میں فرمایا: وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾ ’’اور تم مال سے محبت کرتے ہو جی بھر کر‘‘. تم پر اسے جمع کرنے کی دُھن سوار رہتی ہے. اور سورۃ الہمزۃ میں فرمایا : الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾ ’’(تباہی ہے اُس شخص کے لیے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا. وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دوام بخشے گا‘‘. پس یہ مال کی محبت ہی انسان کے اخلاقی ارتقاء اور اس کی اعلیٰ اقدار کی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے. جس رُخ پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کی شخصیت ترقی اور نشوونما پائے‘اس کا ارتقاء ہو‘ اس کی تعمیر ہو‘ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی مال کی محبت ہے.لہذا اس مال کی محبت کو دل سے کھرچنے کے لیے نسخہ انفاقِ مال ہے‘ یعنی مال کا اللہ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لیے خرچ کرنا. وہ خیرات و صدقات کی صورت میں محتاجوں ‘ مسکینوں‘ یتیموں‘ بیواؤں کی مدد میں صرف ہو رہا ہو. وہ قرابت داروں کا حق ادا کرنے میں صرف ہو رہا ہو. وہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں صرف ہو رہا ہو. وہ پیغامِ الٰہی کی نشرو اشاعت کے لیے صرف ہو رہا ہو. وہ دین کی سربلندی اور غلبہ کے لیے اور اس کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے صرف ہو رہا ہو. یہ ہے اصل میں ’’عملِ تزکیہ‘‘.یہ کرتے رہو گے تو دل سے مال کی محبت ختم ہو گی‘ جو اصلاً علامت ہے حبِّ دنیا کی. اور حبِّ دنیا کا یہ بریک (brake) اگر کھل گیا‘ اس کی گرفت ختم ہو گئی تو اب تمہاری گاڑی پوری رفتار کے ساتھ اس شاہراہ پر چلے گی جس پر چل کر تم تعمیر ذات‘ تعمیر خودی‘ تعمیر شخصیت اور تعمیر سیرت و کردار کے باب میں ترقی کر سکو گے.
اب اس ارتقاء و ترقی کے لیے قرآن مجید نے ایک دوگونہ پروگرام بتایا ہے. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ صلوٰۃ میں وہ نماز بھی شامل ہے جو فرض ہے‘جس کو آپ نے ہر حالت میں ادا کرنا ہے‘ جس کے لیے روزانہ پانچ فرض نمازوں کا نظام موجود ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی نفل نمازیں بھی صلوٰۃ کے زمرے میں شامل ہیں.اسی طرح اس زکوٰۃ کے عمل کے بھی دو اجزاء کر دیے گئے. ایک ’’زکوٰۃ‘‘ تو لازم اور فرض ہو گئی اور اس کے لیے ایک خاص حد معین کر دی گئی ہے جسے ’’نصاب‘‘ کہا جاتا ہے. یعنی مالی حیثیت سے اس سے زائد جو بھی ہے اس پر شرحِ نصاب کے مطابق لازماً رقم لے لی جائے گی . اس کی ادائیگی فرض ہے. اس کو اصطلاحاً زکوٰۃ کہا جاتا ہے.
لیکن عمل تزکیہ تو دائم ہے. اس میں صرف زکوٰۃ مفروضہ ہی نہیں‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مزید انفاق مال کی ترغیب ہے. جیسے ہم آیۂ بر میں پڑھ چکے ہیں : وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ (البقرۃ:۱۷۷) یہاں فرض زکوٰۃ کا علیحدہ سے ذکر ہے اور اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ ’’اس نے مال محبوب ہونے کے باوجود اسے قرابت داروں‘ یتیموں‘ مساکین‘ سوال کرنے والوں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کیا‘‘.لہذا مطلوب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اور دو‘ بڑھ چڑھ کر دو.اس کی جب آخری حد پوچھی گئی کہ حضورﷺ! کہاں تک دیں؟ تو قرآن مجید میں اس کی وضاحت فرمائی گئی : یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (البقرۃ:۲۱۹) ’’یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں! تو (اے نبیؐ !) ان سے کہیے جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہے (اسے دے ڈالو)‘‘. پھر مزید تشویق و ترغیب کے لیے فرمایا: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ (آل عمران:۹۲) ’’تم نیکی (کے بلند ترین مقام) تک نہیں پہنچ سکو گے جب تک کہ( اللہ کی راہ میں) اس چیز میں سے صرف نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے‘‘. اب یہ ہے وہ عملِ تزکیہ جس کی ترغیب و تاکید قرآن مجید میں بار بار آتی ہے. آخری پارے کی سورۃ الشمس میں نفس انسانی کے بارے میں فرمایا گیا: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾ ’’گواہ ہے یہ نفسِ انسانی اور جو اللہ نے اسے بنایا اور سنوارا (اور اس میں طرح طرح کی صلاحیتیں اور بہت سی استعدادات ودیعت فرمائیں). پھر اس میں بدی اور نیکی کا شعور بھی الہامی طور پر پیدا فرمادیا.تو جس کسی نے اس کا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک آلود کر دیا وہ ناکام و نامراد ہوا‘‘. یہی بات ہم سورۃ الاعلیٰ میں دیکھتے ہیں : قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۴﴾وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴿ؕ۱۵﴾ ’’کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے تزکیہ حاصل کر لیا اور اس نے اپنے ربّ کے نام کا ذکر کیا اور نماز ادا کی‘‘. سورۃ الاعلیٰ کی یہ دو آیتیں سورۃ المؤمنون کی ان آیات سے بہت مشابہ ہیں: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾
تو یہ تھے تعمیر سیرت کے قرآنی پروگرام کے دوسرے اور تیسرے اجزاء‘ یعنی ایک ’’اِعراض عَنِ اللَّغو‘‘ جس کا براہِ راست تعلق ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالقیامۃ سے ہے‘ اور دوسرے تزکیہ پر مسلسل عمل پیرا رہنا. اسی کے لیے سورۃ المعارج میں یہ الفاظ آئے: وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾ ’’اوروہ لوگ کہ جن کے اموال میں حق ہے‘ جو جانا پہچانا ہے‘ سائل کے لیے بھی اور محروم کے لیے بھی‘‘.