اس رکوع کی پہلی دو آیات کا مضمون سمجھ لینے کے بعد اب ہم اگلی پانچ آیات (الفرقان: ۶۳تا۶۷)کا مطالعہ کرتے ہیں. ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے اوصاف بیان فرما رہا ہے جو اُسے بہت ہی پسند اور محبوب ہیں. چنانچہ گفتگو کی جو ابتدا ہوئی ہے وہ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کے الفاظ سے ہوئی ہے. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ’’الرَّحۡمٰنِ ‘‘ نہایت پیارا نام ہے. اس لیے بھی کہ یہ رحمت سے مشتق ہے‘ اور ظاہر بات ہے کہ بندوں کو جس چیز کی زیادہ احتیاج ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے. اور اس لیے بھی کہ اگرچہ رحمت سے اللہ تعالیٰ کا ایک نام اور بھی بنتا ہے اور وہ ہے ’’الرَّحِیْمُ‘‘ لیکن ’’الرحیم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شان ایک مستقل اور دائم حقیقت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے‘ جبکہ ’’اَلرَّحۡمٰنُ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جو شان سامنے آتی ہے وہ ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند ہے‘ جس میں جوش و خروش ہو‘ جس میں ہیجان ہو. یہ لفظ ہیجان بھی فَعْلَان کے وزن پر عربی ہی کا لفظ ہے. اسی وزن پر عربی زبان میں متعدد الفاظ آتے ہیں.
مثلاً عَطْشَان یعنی انتہائی پیاسا‘ جس کی پیاس سے جان نکلی جا رہی ہو‘ جَوْعَان یعنی نہایت بھوکا‘ جو بھوک سے مر رہا ہو. تو اللہ تعالیٰ کا یہ نامِ نامی‘ اسم گرامی ’’اَلرَّحۡمٰنُ‘‘ بہت ہی پیارا ہے. اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح سامنے آتی ہے.
پھر ’’عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ ‘‘ کے فرمانے میں بھی ایک محبت اور شفقت و عنایت کا انداز ہے ‘یعنی اللہ کے محبوب بندے‘ اللہ کے پسندیدہ بندے یہ ہیں جن میں یہ اوصاف پائے جاتے ہوں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے.