اگلی دو آیات میں فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹﴾
’’اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے سوا کسی اور معبود کو‘ اور نہ وہ قتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ ‘ اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں ‘ اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اس کی پاداش پائے گا. دوگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب کو قیامت کے دن‘ اور وہ رہے گا اس میں ہمیشہ ہمیش نہایت ذلیل و خوار ہو کر‘‘.
اُن مثبت اوصاف اور مثبت اقدار کے ذکر کے بعد جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں‘ جن سے ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت میں دل آویزی اور جاذبیت پیدا ہوتی ہے اور جو ایک مؤمن کی شخصیت کی پختگی اور "maturity" کی علامات ہیں‘ اب ان دو آیات میں اندازِ بیان منفی ہے. یعنی عباد الرحمن میں یہ چیزیں بالکل نہیں ہوتیں‘ وہ اِن چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے.
اس سلسلے میں قرآن مجید کی حکمت کا ایک اہم باب ہمارے سامنے آ رہا ہے کہ وہ کون کون سے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب اور مبغوض ہیں‘ جن سے وہ سخت ناراض ہوتا ہے اور جن سے اس کا غیظ و غضب شدید ترین طور پر بھڑکتا ہے. یا بالفاظِ دیگر یوں سمجھئے کہ ہمارے یہاں جو یہ تصور ہے کہ ایک گناہ کبیرہ ہوتے ہیں اور ایک گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو ہم سمجھیں کہ کبیرہ گناہوں میں چوٹی کے گناہ کون سے ہیں! ان دو آیات میں سے پہلی آیت چوٹی کے تین گناہوں کو معین کر رہی ہے. یعنی اس ایک آیت میں کبائر میں سے درجہ بدرجہ تین سب سے بڑے گناہوں کا ذکر ہے.