وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی اٰخِیَّتِہٖ (۱)
’’مؤمن اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے‘‘.
بڑی پیاری تمثیل ہے. ایک گھوڑا تو وہ ہے جس پر کوئی پابندی نہیں ہے‘ کوئی بندش نہیں ہے‘ وہ جدھر چاہے منہ مارے‘جدھر چاہے زقند لگائے‘ آزادی کے ساتھ جس طرف چاہے اور جہاں تک چاہے دوڑ لگائے. اس کے برعکس ایک گھوڑا وہ ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے. اب آپ فر ض کیجیے کہ دس گز کی ایک رسّی ہے جس سے وہ گھوڑا اپنے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے. لہذا دس گز نصف قطر کے دائرہ کے اندر وہ گھوم پھر سکتا ہے. اس گھوڑے کو اتنی آزادی ہے کہ وہ اس دائرے کے اندر جس طرف چاہے پانچ سات گز کے فاصلہ پر جا کر بیٹھ جائے ‘ مزید آگے جانا چاہے تو چند قدم اور اٹھا لے‘ لیکن دس گز سے آگے ہرگز نہیں جا سکتا‘ اس لیے کہ وہ بندھا ہوا ہے بقول اقبال ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بگل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
اگر غور کیا جائے تو یہ اسلامی ریاست کی سطح پر اس کی حیاتِ اجتماعی اور دستورِ اساسی کا اصل الاصول ہے‘ یا یوں کہیے کہ اس کی پہلی دفعہ اس آیت سے معین ہوتی ہے. اس لیے کہ ریاست کے ضمن میں سب سے پہلی بحث یہ آئے گی کہ حاکمیت (Sovereignty) کس کی ہے؟ اور اسلامی ریاست میں حاکمیت ِ مطلقہ صرف اللہ کی ہے بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری
آیت کے حوالے سے ہو گی کہ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ (آیت۵۹) ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول (ﷺ ) کی اور تم میں سے جو صاحب امر ہیں ان کی‘‘. اس آیۂ مبارکہ میں ’’اَطِیْعُوْا‘‘ جو صیغۂ امر ہے‘ دو مرتبہ آیا ہے ‘ اللہ کے ساتھ بھی اور رسولﷺ کے ساتھ بھی.اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول (ﷺ ) کی‘‘ لیکن آگے جب اس اطاعت کی زنجیر کی تیسری کڑی آئی تو فعل امر ’’اَطِیْعُوْا‘‘ کو لوٹایا نہیں گیا بلکہ فرمایا گیا : وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ْ ’’اور ان کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘‘ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بالذات اور مطلق ہے‘ جبکہ ’’وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘ کی اطاعت مشروط ہو گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے دائرہ کے اندر اندر حکم دے سکتے ہیں‘ اس کے باہر نہیں. اس کے لیے نبی اکرمﷺ نے دائمی طور پر یہ اصل الاصول معین فرما دیا ہے کہ : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱) یعنی کسی ایسے معاملہ میں مخلوق میں سے کسی کے حکم کی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی معصیت یعنی اللہ کی نافرمانی لازم آ رہی ہو.
پس قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اسالیب سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان سب کو جمع کیا جائے تو اس کا جو حاصل نکلتا ہے اسے بڑی جامعیت اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں بایں الفاظِ مبارکہ بیان فرما دیا گیاہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہ ’’اے اہل ایمان! مت آگے بڑھو اللہ سے اور اس کے رسول(ﷺ ) سے‘‘.
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ بڑے دستوری‘ آئینی اور قانونی الفاظ ہیں اس اصول الاصول کی تعیین کے لیے انفرادی وا جتماعی زندگی کے تمام امور و مسائل اور معاملات اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے دائرے کے اندر اندر رہیں گے‘ اس سے تجاوز نہیں ہوگا. البتہ اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے حسبِ حالات اور حسبِ موقع اپنی مرضی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے. میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ اہل لغت و نحو کے تمام کے تمام اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’امر‘‘ کے مقابلہ میں ’’نہی‘‘ میں زیادہ زور (emphasis) ہوتا ہے. یعنی ایک یہ کہ حکم دیا جائے کہ ’’اللہ اور (۱) المعجم الکبیر للطبرانی، عن عمران بن حصین، رقم الحدیث 14819، اسنادہ حسن اس کے رسول (ﷺ ) سے آگے مت بڑھو‘‘ تو یہ جو دوسرا انداز ہے اس میں تاکید کا رنگ زیادہ غالب ہے.
پھر یہ کہ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ خالص دستوری اعتبار سے یہ الفاظ نہایت جامع (comprehensive) ہیں. یہ الفاظ اس طریقہ سے اس بات کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے جو واضح احکام ہیں ان سے تجاوز نہیں کیا جا سکے گا‘ ان کے اندر اندر آزادی حاصل ہے‘ جیسے گھوڑے کی مثال کے ضمن میں عرض کیا گیا تھا کہ کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کو بس اتنی آزادی ہے کہ وہ اپنی رسّی کی مقدار کے مطابق ایک معین دائرے کے اندر اندر گھوم پھر سکتا ہے اور جس سمت چاہے اور رسّی کی حدود میں رہتے ہوئے جتنے فاصلے پر چاہے جاکر بیٹھ سکتا ہے. لہذا سورۃ الحجرات کے ان الفاظ کے ذریعے سے ایک دائرہ کھینچ دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی حیثیت ’’حدود اللہ‘‘ کی ہے. ان سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا. البتہ اس دائرے کے اندر اندر تمہیں اختیار حاصل ہے کہ اپنے ریاستی‘ مملکتی اور انتظامی امور اپنی صوابدید سے طے کر سکتے ہو‘ اپنے قوانین بنا سکتے ہو.