ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا!
آپؐ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے بالکل درست کہا ہے کہ ؎
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
اب اگر ہم ان دونوں کو جمع کریں تو ایک ہے ہماری ہیئت اجتماعیہ یا حیاتِ ملی کے لیے دستوری‘ آئینی اور قانونی بنیاد اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی اطاعت. یہ گویا ایک دائرہ ہے اور اس دائرے کے درمیان ہے ایک انتہائی دلنواز اور دلآویز شخصیت‘ بقول شاعر ؏ ’’نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز‘‘ کا مصداقِ کامل اس کے لیے اگر ’’مرکز ملت‘‘ کی اصطلاح اختیار کی جائے تو مجھے اعتراض نہیں‘ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہمارا یہ مرکز دائم و قائم ہے. یہ کسی بھی دور میں بدلنے والا نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو ہمیشہ ہمیش کے لیے تاقیامِ قیامت جناب محمد رسول اللہﷺ ہی کی شخصیت ہے جو ’’مرکز ملت‘‘ کے مقام پر فائز رہے گی اور حضورﷺ ہی کو معیارِ مطلق بنانا ہو گا.مختلف مسلمان معاشروں اور مختلف مسلمان ملکوں میں یقینا جب رہنما اور مصلح سامنے آتے ہیں تو ہمیں ان سے محبت و عقیدت ہوتی ہے. اگر ترکوں کے دلوں میں مصطفی کمال کی عظمت ہے تو ٹھیک ہے‘ وہ ان کے محسن تھے. اسی طرح پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں اگر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی محبت ہے تو درست ہے‘ وہ ہمارے محسن ہیں. لیکن ہمیشہ کے لیے اور جو ابدی معیار قائم و دائم رہے گا وہ شخصیت جناب محمد رسول اللہﷺ کی ہے. اگر ہم نے اس معیار کو مجروح کر دیا تو یہ جان لیجیے کہ پھر مسلمانوں کی حیاتِ ملی کی ایک اہم اساس منہدم ہو جاتی ہے. یہ ہمارا معیار ہے جو مستقل ہے‘ دائم و قائم ہے. یہ نہ صرف ہماری تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے‘ بلکہ اس تہذیبی و ثقافتی ہم رنگی‘ ہم آہنگی اور یکسانیت کے ساتھ تہذیب و ثقافت کا ایک تسلسل و تواتر ہے جو چودہ سو سال سے جاری و ساری ہے. وضع قطع اور لباس کے حدود و قیود اور نشست و برخاست کے انداز‘ حضورﷺ کے اُسوۂ حسنہ کے اتباع سے مسلمانوں میں فروغ پذیر ہوئے. یہی وجہ ہے کہ کسی مسلمان چاہے مشرق بعید کے رہنے والے ہوں یا مغربِ بعید کے‘ غرض دنیا کے کسی خطے میں بسنے والے مسلمان ہوں‘ ان سب کے درمیان ایک مناسبت‘ ہم رنگی‘ اور یکسانیت نظر آتی ہے. یہ اسی لیے ہے کہ ان کے لیے مرکزی شخصیت ہمیشہ ہمیش کے لیے جناب محمد رسول اللہﷺ کی ہے.