آخری بات یہ سامنے رکھیے کہ اس حکم پر ہم کیسے عمل کریں؟ اس کا تعلق ہم سے یہ ہے کہ حضورﷺ کی ثابت شدہ سنتیں اور حضورﷺ کی احادیث حضورﷺ کی قائم مقام ہیں. نبی اکرمﷺ آج بھی معناً ہمارے مابین موجود ہیں‘ اس لیے کہ حضورﷺ کی سنتیں آج بھی زندہ و پائندہ ہیں. حضورﷺ کا اُسوۂ حسنہ آج بھی نصف النہار کے خورشید کی طرح درخشاں و تاباں ہے. ہمارے سامنے جب بھی کوئی بات حضورﷺ کی آئے ہمیں اپنی عقل کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے‘ اپنے فلسفے بھگارنے بند کر دینے چاہئیں‘ اپنی منطق کو پس پشت ڈال دینا چاہیے‘ اپنے ’’اقوال‘‘ پر تالا ڈال دینا چاہیے. تحقیق تو ہو سکتی ہے کہ حضورﷺ نے یہ بات فرمائی یا نہیں فرمائی‘ لیکن ادب کا تقاضا یہ ہے کہ حضورﷺ کی حدیث کے حوالے سے جب بات سامنے آئے تو زبان فوراً بند ہو جائے‘ سر فوراً جھکا دیے جائیں. بعد میں اگر تحقیق سے معلوم ہو کہ روایت صحیح نہیں تو ٹھیک ہے‘ اس پر اب عمل نہیں ہو گا. لیکن ادب کا تقاضا یہ ہے کہ حضورﷺ کی کوئی بات اگر سامنے آئے تو فوراً سرِ تسلیم خم کر دیا جائے. لیکن اگر اس کے برعکس پھر بھی ہم اپنے فلسفے چھانٹیں اور اپنی منطق بگھاریں تو یہ وہ طرزِ عمل ہو جائے گا کہ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ ’’مبادا تمہارے تمام اعمال اکارت ہو جائیں‘‘ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’اور تمہیں اس کا ادراک و احساس تک نہ ہو‘‘. اس کے بعد ہم آیت ۶ اور آیات ۹‘۱۰ کا مطالعہ کرتے ہیں. فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۹﴾اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿٪۱۰﴾
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو چھان بین کر لیا کرو. مبادا تم نادانی میں کسی قوم کے خلاف اقدام کر بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے‘‘.
اس کے بعد فرمایا:
’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرا دو‘ اور اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرنے پر مصر رہے تو اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کے سامنے جھک جائے. پھر اگر وہ اللہ کے حکم کو تسلیم کر لے تو پھر صلح کرا دو ان دونوں کے مابین انصاف کے ساتھ‘ اور عدل سے کام لو‘ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے. یقینا تمام اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں. پس تم اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرا دیا کرو‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو (اس کی نافرمانی سے بچو) تاکہ تم پررحم کیا جائے‘‘.