سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ ٍ اور وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عام طو رپر قرآن مجید میں جو احکام آتے ہیں وہ صرف مَردوں سے خطاب کر کے ارشاد ہوتے ہیں. اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ احکام صرف مَردوں ہی کے لیے ہوتے ہیں. عربی گرامر کا یہ قاعدہ ہے کہ خطاب میں برسبیلِ تغلیب کسی ایک چیز کا ذکر کر دینے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ دوسری چیز‘ جو اس کے تابع ہے وہ بھی مخاطب ہے.چنانچہ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر احکام صیغۂ مذکر میں دیے گئے ہیں. لیکن یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس حکم کی خواتین کے لیے خاص طور پر تکرار آئی ہے. اس تکرار کی حکمت اور وجہ تھوڑے سے غور سے سمجھ میں آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلسی خرابی مَردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے. مَردوں کے سامنے زندگی کے بہت سے اہم ترین مسائل اور تلخ تر حقیقتیں رہتی ہیں اور ان میں ان کی مشغولیت رہتی ہے‘ جبکہ خواتین کا دائرہ عمل چونکہ بالعموم محدود رہتا ہے لہذا یہ باتیں ان میں زیادہ رواج پاجاتی ہیں. کسی کے لباس پر کوئی فقرہ چست کر دیا‘ کسی کی شکل و صورت کے بارے میں کوئی استہزائی انداز کا تبصرہ کر دیا. کسی کا رہن سہن اور چلن اگر فیشن کے مطابق نہیں ہے تو اس کا تمسخر اڑا دیا گیا. چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہم قرار دے کر ان پر اس طرح کی پھبتیاں چست کر دینا‘ ان پر استہزائی اور تمسخر کے انداز میں تبصرے کر دینا‘ عام طو رپر عورتوں کی مجلسی زندگی میں یہ برائی زیادہ پائی جاتی ہے‘ لہذا اس کا یہاں خاص طو رپر علیحدہ ذکر کیا گیا ہے. اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ خرابی مَردوں میں نہیں ہے. مَردوں میں بھی یہ برائیاں موجود ہیں ‘ چنانچہ پہلے انہیں خطاب کیا گیا اور اس کے بعد اسے خواتین کے لیے دہرایا گیا.
اب آپ مزید غور کریں گے تو واضح ہو گا کہ باہم دوستوں میں بھی ایک دوسرے کا تمسخر واستہزاء بسا اوقات رنجش کا سبب بن جاتا ہے اور دوستیاں ٹوٹ جاتی ہیں. ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مذاق کسی دوست سے دس مرتبہ کیا گیا اور وہ برداشت کر گیا‘ لیکن کسی وقت اس کا موڈ آف ہوتا ہے تو ایسے میں ہو سکتا ہے کہ وہی مذاق اس کی برداشت سے باہر ہو جائے اور وہ پھٹ پڑے اور یہ پھٹ پڑنا ہو سکتا ہے کہ دیرینہ سے دیرینہ دوستی کے رشتے کو منقطع کرنے کا باعث بن جائے. یہ معاملہ خالص افراد کی سطح پر بھی ہو سکتا ہے اور گروہوں‘ خاندانوں‘ کنبوں اور قبیلوں کی سطح پر بھی ہوسکتا ہے. پس پہلا حکم یہ دیا گیا کہ تمسخر اور استہزاء سے باز رہو.
اب دیکھئے کہ اس میں اپیل کا ایک بڑا مؤثر انداز بھی موجود ہے‘ جس سے زیادہ مؤثر اسلوب ممکن نہیں ہے. مَردوں کے لیے فرمایا: عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُم اور عورتوں کے لیے فرمایا: عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ تم جس کی ظاہری کمزوری یا عیب کو دیکھ کر مذاق اڑا رہے ہو‘ اس پر فقرے چست کر رہے ہو‘ اس شخص کے متعلق تمہیں کیا معلوم کہ اس کے دل میں اللہ کی کتنی محبت ہو‘ اس کے دل میں محبت رسولؐ کا کتنا بڑا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو‘ اور اللہ کو تو قدر ان چیزوں کی ہے. جیسے ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَادِکُمْ وَلَا اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلٰــکِنْ یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ (۱) ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اللہ کی نگاہ تو تمہارے (۱) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ رقم 4658 دلوں اور تمہارے اعمال پر ہے.‘‘
لہذا ہو سکتا ہے کہ وہ سیرت و کردار اور اللہ اور رسولؐ کی محبت و اطاعت اور فرمانبرداری میں تم سے کہیں آگے ہو‘ اللہ کے یہاں اس کا رتبہ بہت بلند ہو حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی جو شکل و صورت تھی‘ اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں. پھر انؓ ‘کا حال یہ تھا کہ عربی کے بعض تلفظ صحیح ادا نہیں کر سکتے تھے. یہ بات مشہور و معروف ہے کہ انؓ سے شین بالکل ادانہیں ہوتا تھا . اذان میں وہ ’’اَشْھَدُ اَن لا الٰہ الا اللّٰہ‘ کو و اَسْھَدُ اَن لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کہا کرتے‘ لیکن انؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ‘ آخرت اور رسالت پر جو ایمان تھا اور انؓ کے ریشے ریشے میں اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی جو شدید محبت رچی بسی تھی اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امیر المؤمنین‘ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انؓ سے سیدنا بلالؓ ‘کہہ کر خطاب فرمایا کرتے تھے.تو پہلی بات یہ سامنے آئی کہ کسی کا تمسخر و استہزاء نہ کرو‘ اور اس کے لیے نہایت مؤثر اپیل کا اندازاختیار کیا گیا ہے.