تیسرا حکم آیا وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ایک دوسرے کے برے نام‘ چڑانے والے نام‘ تحقیر آمیز نام رکھ کر ان ناموں سے کسی کو مت پکارا کرو. ظاہر بات ہے کہ اس سے انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور اس کا ردّعمل ہوتا ہے. ہو سکتا ہے کہ وہ کمزور ہو‘ احتجاج نہ کر سکے اور ’’قہر درویش برجانِ درویش‘‘ کے مصداق اسے اندر ہی اندر ضبط رہا ہو. لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے جذبات مجروح نہیں ہوئے. یہی چیز وہ صورت اختیار کر سکتی ہے جیسے دو اینٹوں کے درمیان ان کو جو توڑنے والا مسالہ کمزور پڑ جائے اور اپنی جگہ چھوڑ دے تو یہ چیز دشمن کے اندر در آنے کا سبب بن سکتی ہے. لہذا فرمایا گیا کہ ایسے تمام رخنوں کو بند رکھنے کا اہتمام کرو. اس معاملہ میں احتیاط کا دامن تھامے رکھو.
یہاں پھر دیکھئے کہ انتہائی مؤثر اور دلنشیں پیرایۂ بیان اختیار فرمایا گیا ہے : بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ ’’ایمان کے بعد تو برائی کا نام بھی برا ہے‘‘. جب اللہ نے تمہیں ایمان جیسی دولت عطا فرمائی‘ تمہیں جناب محمد رسول اللہﷺ کے دامن سے وابستہ ہونے کا شرف عطا فرمایا‘ تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور پستی کی طرف تمہارا یہ رجحان اس مقام سے مناسبت رکھنے والی چیز نہیں ہے جو اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے.
اس ترغیب کے ساتھ ہی اب ترہیب و تہدید اوردھمکی بھی ہے. ارشاد فرمایا: وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾ ’’اور جو باز نہیں آئیں گے‘ رجوع نہیں کریں گے‘ اللہ کی جناب میں توبہ نہیں کریں گے تو جان لو کہ اللہ کے نزدیک ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘. یعنی ایسے لوگوں کو آخرت میں اپنے ایسے تمام افعال و اعمال کی جوابدہی کرنی پڑے گی اور ان کی سزا بھگتنی ہو گی‘ ان تمام چیزوں کو ‘ account for کرنا پڑے گا. یہ چیزیں ایسی نہیں رہ جائیں گی جن کا حساب نہ لیا جائے.
اگلی آیت میں پھر تین احکام بصورتِ نواہی آئے. قرآن مجید کا اعجاز بیان دیکھئے کہ ان چھ باتوں کو دو آیتوں میں تقسیم کیا‘ تین پہلی آیت میں اور تین دوسری آیت میں. لیکن پہلی آیت میں وہ تین باتیں آئی ہیں جو رُو دَر رُو ہوتی ہیں. ظاہر بات ہے کہ طنز سامنے کیا جائے گا‘ طعنہ سامنے دیا جائے گا‘ تمسخر و استہزاء سامنے ہی کیا جائے گا‘ تب ہی تو اس سے لذت حاصل ہو گی. اسی طریقہ سے کسی کو برے نام سے پکارنے کا معاملہ بھی علی الاعلان ہو گا.