اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے کیا؟ جہاد کے بارے میں ہمارے یہاں دو بڑے بڑے مغالطے ہیں. ایک یہ کہ جہاد کے معنی جنگ کے لیے جاتے ہیں. یہ بات صحیح نہیں ہے‘ اس کی بلند ترین چوٹی جنگ ہے. اس کی وضاحت آگے بیان کی جائے گی. ویسے جنگ کے لیے قرآن مجید کی اصطلاح قتال فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ہے ’’جہاد‘‘ کا لفظ ’’جہد‘‘ سے بنا ہے‘ اور جہد کے معنی کوشش کے ہیں. جدوجہد کا لفظ ہم بولتے ہیں. ’’قتال‘‘ کا لفظ ’’قتل‘‘ سے بنا ہے‘ اس کے معنی جنگ کے ہیں. دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ مسلمان جو بھی جنگ کرے‘ جہاد ہے. یہ گویا بنائے فاسد علی الفاسد ہے‘ یعنی ایک غلط بات پر ایک اور غلط بات کی بنیاد رکھنا. مسلمان کی صرف وہ جنگ قتال فی سبیل اللہ یا جہاد کی چوٹی کے اعتبار سے جہاد فی سبیل اللہ ہو سکتی ہے جس کا مقصد صرف اللہ کے کلمہ کو سربلند کرنا ہو. اگر وہ ہوسِ ملک گیری کی غرض سے ہے‘ اپنے دنیوی اقتدار کی توسیع کے مقصد کے تحت ہے تو وہ قتال یا جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے. لہذا ان دونوں مغالطوں کو ذہن سے نکال دیجیے اور اب مثبت طو رپر سمجھئے کہ جہاد کسے کہتے ہیں!
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس کا مادہ (root) جہد ہے‘ اور جہد کے معنی کوشش کے ہیں. انگریزی میں اسے یوں ادا کریں گے ’’to strive for something‘‘ یہ جہد ہے لیکن مجاہدہ یا جہاد کے الفاظ میں ایک اضافی معنی پیدا ہو جاتے ہیں. مجاہدہ وہ ہو گا جہاں جہد‘ جہد سے ٹکرائے‘ جہاں کوشش کا کوشش سے مقابلہ ہو . عربی زبان میں بابِ مفاعلہ میں جو الفاظ آتے ہیں ان میں اکثر الفاظ میں آپ کو یہ خاصیت ملے گی کہ دو فریق بالمقابل آ کر ایک ہی عمل کر رہے ہوں اور ایک دوسرے کو زیر کرنا چاہتے ہوں. جیسے مباحثہ ہے. مباحثہ میں دو فریق ہوتے ہیں‘ اس کا ایک موقف ہے‘ دوسرے کا کوئی دوسرا موقف ہے. یہ اپنے حق میں دلیل دے گا‘ وہ اپنے حق میں دلیل دے گا. یہ اُس کی دلیل کو کاٹے گا‘ وہ اِس کی دلیل کو کاٹے گا‘ وہ اِس کی دلیل کو کاٹے گا. یہ مباحثہ ہے. اسی طرح مقابلہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کے سامنے آنا. مقاتلہ یا قتال کے معنی ہوئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرنا. چنانچہ جہاد یا مجاہدہ یہ ہے کہ جہد‘ جہد سے ٹکرا رہی ہو‘ کوششوں کا تصادم ہورہا ہو. فارسی میں اس کو کشمکش اور کشاکش سے تعبیر کریں گے. انگریزی میں اس کے لیے struggle بالکل صحیح لفظ ہے. struggle یقینا کسی resistance کے خلاف ہوتی ہے‘ کسی مزاحمت کے مقابلے میں ہوتی ہے. اسی لیے اس کے بعد صلہ یعنی preposition کے طور پر against آتا ہے.
اب دیکھئے‘ دنیا میں کیا ہوتا ہے! ایک شخص کا ایک نظریہ ہے‘ دوسرے کا دوسرا. مثال کے طور پر ایک شخص مارکسسٹ ہے‘ دوسرا شخص مغربی جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کا قائل ہے. یہ بھی اخلاص کے ساتھ اپنے نظریے کا قائل ہے اور وہ بھی اپنے نظریے میں مخلص ہے. ان دونوں کے درمیان تصادم ہو کر رہے گا. یہ تصادم پہلے نظریاتی سطح پر ہو گا. وہ اپنے نظریئے کی تشہیر کرے گا‘ یہ اپنے نظریئے کو پھیلائے گا. وہ اپنے ہم خیال لوگوں کی جماعت بنائے گا‘ یہ اپنے ہم خیالوں کی تنظیم بنائے گا. پھر ان کے درمیان کشمکش ہو گی. جو جیت جائے گا‘ اس کے نظریہ کے مطابق اس ملک میں نظام قائم ہو جائے گا. لہذا واقعہ یہ ہے کہ اگر خلوص کے ساتھ کسی نظریہ کو تسلیم کیا گیا ہو تو اس کے لیے جدوجہد اور مجاہدہ ناگزیر ہے. اگر نہیں ہو رہا ہے تو یہ قطعی طو رپر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص اپنے نظریے میں مخلص نہیں ہے. مخلص اور صاحب کردار انسان ہو گا تو وہ اپنے نظریے کی دعوت وتبلیغ کے لیے جدوجہد کرے گا اور اسی عمل کا نام جہاد ہے. پس اگر کسی شخص کو یقین حاصل ہے اللہ پر‘ اس کی توحید پر‘ اس کے رسول حضرت محمدﷺ پر‘ قرآن پر اور اسلام پر تو لامحالہ اس کے اس یقین کا ظہور اس کے عمل میں اس طریق سے ہو گا کہ وہ اسلام کے لیے جدوجہد کرے گا‘ محنت کرے گا‘ کوشش کرے گا. اسلام کو پھیلائے گا‘ ایمان کی دعوت عام کرے گا‘ ان لوگوں کو جمع کرے گا جو اسلام کے لیے جان اور مال دینے کے لیے تیار ہوں گے. وہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے struggle کرے گا. اگر ایمانِ حقیقی دل میں ہے تو یہ ہو کر رہے گا اور اگر یہ نہیں ہورہا ہے تو دلی یقین والا ایمان موجود نہیں ہے. یہ ہیں معنی اس کے کہ جہاد رکن ہے ایمان کا.