اور یہ بات جان لیجیے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ کی راہ میں جان دینے کی آرزو رکھنے کو بھی ایمان کا ایک اہم ترین رکن قرار دیا ہے. یہ بات ٹھیک ہے کہ جنگ ہر وقت نہیں ہوتی. لیکن اگر دل میں حقیقی ایمان موجود ہے تو یہ تمنا موجود رہنی چاہیے کہ کاش میری زندگی میں وہ وقت آئے کہ خالصتاً قتال فی سبیل اللہ کا مرحلہ آئے اور میں اس میں اپنی گردن کٹا کر اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرخرو اور سبکدوش ہوجاؤں. حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَغُزْ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسُہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنَ النِّفَاقِ
’’جس شخص کی موت اس حال میں واقع ہوئی کہ نہ تو اس نے اللہ کی راہ میں جنگ کی اور نہ ہی اس کے دل میں آرزو پیدا ہوئی تو اس شخص کی موت ایک نوع کے نفاق پر واقع ہوئی‘‘.
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو شوقِ شہادت سے معمور فرمائے.
جہاد شروع میں تو مجاہدہ مع النفس سے ہوتا ہے لیکن اس کی آخری منزل وہی قتال فی سبیل اللہ ہو گی. یہ نگاہ سے اوجھل نہ ہونے پائے. اگرچہ اس کی کچھ شرائط ہیں‘ وہ پوری ہوں گی تو آپ وہاں پہنچیں گے‘ لیکن یہ آرزو دل میں رہنا کہ ہماری زندگی میں وہ مرحلہ بھی آئے‘ ایمان کی شرط لازم ہے. اگر یہ نہیں تو ایمان نہیں ہے.
پس ایمان کے دو رُکن ہیں جو اس آیت مبارکہ کے حوالے سے ہمارے سامنے آئے. اب آپ جمع کر لیجیے. جب اسلام اور ایمان دونوں یکجا ہو جائیں گے تو گویا اقرار باللسان بھی ہوگا اور تصدیق بالقلب بھی. نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ اسلام کے ارکان کی حیثیت سے ہوں گے‘ جبکہ شک و شبہ سے مبرا ایمان دل میں اور جہاد فی سبیل اللہ بالنفس وبالمال عمل میں‘ یہ ایمان کے ارکان کی حیثیت سے ہوں گے‘ اور اس طرح گویا ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت مکمل ہو جائے گی. اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس نقشے پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے.