قرآن کا قانونِ عذاب ہمارا ایمان ہے کہ اس کائنات میں ایک پتہ بھی اللہ کے اِذن کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا. ساتھ ہی ہمیں یہ بھی پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ یہاں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے اُن اٹل قوانین اور قواعد و ضوابط یعنی قرآنِ حکیم کی اصطلاح میں اللہ کی اس’’ سنت‘‘کے تحت ہوتا ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں.جیسے کہ فرمایا سورۃ الاحزاب کی آیت ۶۲ میں کہ:
وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۶۲﴾
’’اورتم ہر گز نہ پاؤ گے اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی!‘‘
بعینہٖ یہی مضمون سورۂ فاطر کی آیت ۴۳ اور سورۃ الفتح کی آیت ۲۳ میں بھی وارد ہوا ہے. لہذا اگر آج پوری دنیا میں مسلمان شدید مصائب اور آلام سے دو چار ہیں تو یہ بھی یقینا اللہ تعالیٰ کے کسی قانون یعنی اس کی اٹل اور مستقل سنت کے تحت ہو رہا ہے. اور اگر ہم دل سے چاہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال تبدیل ہو تو لازم ہے کہ قرآن حکیم پر تدبر اور تفکر کے ذریعے اللہ کے قانونِ عذاب کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ اس لیے کہ اسی پر اصلاحِ احوال کی صحیح اور مؤثر تدابیر کے فہم و شعور کا انحصار اور دارومدار ہے.
قرآنِ حکیم کے عام اسلوب کے مطابق اس کا ’’قانونِ عذاب‘‘ بھی کہیں پورے کا پور ایکجا بیان نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کی مختلف دفعات متفرق طور پر مختلف مقامات پر وارد ہوئی ہیں. اور اگر اِن سب کو جمع اور مرتب کر کے ان کی پشت پر کار فرما حکمت سمیت بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے کہ:
(۱) یہ دنیا بنیادی طور پر دارالعذاب نہیں دارالامتحان ہے‘ اور جزا و سزا کا معاملہ اصلاً دنیا سے نہیں آخرت سے متعلق ہے. چنانچہ اس حیاتِ انسانی میں سے جو علامہ اقبال کے اس قول کے مطابق کہ ؎
’’تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی!‘‘
اتنی طویل ہے کہ دنوں‘ مہینوں اور سالوں کیا صدیوں میں بھی نہیں ناپی جا سکتی‘ موت کا ایک وقفہ ڈال کر: ( ؎ ’’ موت اِک زندگی کا وقفہ ہے. یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر!‘‘) جو نہایت مختصر اور حقیر سا حصہ ’’حیاتِ دُنیوی‘‘ کی صورت میں علیحدہ کر لیا گیا ہے‘ اس کی اصل غرض و غایت آزمائش اور امتحان و ابتلاء ہے. جیسے کہ فرمایا گیا سورۃ الملک کی آیت ۲ میں کہ:
خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ
’’اُس نے بنائی موت اور زندگی تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سے اچھے عمل کرنے والا.‘‘
جس کی بہترین ترجمانی کی ہے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہ: ؎
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!
اس امتحان میں انسان کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا‘ جہاں اگرچہ اس غرض کے لیے تو قوموں اور اُمتوں کی اجتماعی پیشی بھی ہو گی کہ ان کی جانب مبعوث کیے جانے والے رسول استغاثے کے گواہوں کی حیثیت سے ان پر حجت قائم کر سکیں کہ ہم نے تو تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا تھا‘ اب اپنے طرزِ عمل کے لیے تم خود جوابدہ ہو‘ تاہم اصل محاسبہ ہر انسان کا خالص انفرادی حیثیت پر ہو گا. جیسے کہ فرمایا سورۂ مریم کی آیت ۹۵ میں کہ:
وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا ﴿۹۵﴾
’’اوران میں سے ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور میں پیش ہو گا فرداً فرداً (یعنی اکیلا اکیلا).‘‘
گویا انفرادی سطح پر کسی انسان پر جو مصیبتیں حیاتِ دُنیوی کے دوران نازل ہوتی ہیں وہ امتحان اور آزمائش کی غرض سے ہوتی ہیں‘ عذاب یا سزا کے طور پرنہیں. اس قاعدۂ کلیہ میں صرف ایک استثناء‘ جو بعض احادیث نبویہؐ سے معلوم ہوتا ہے‘ یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک اور مقبول بندے کو دنیا میں کسی تکلیف میں اس لیے مبتلا کر دیتا ہے کہ اسے اس کی کسی خطا کا کفارہ بنا دے‘ تاکہ وہ آخرت کی سزا سے بچ جائے. تاہم منطق کے عام قاعدے کے مطابق اس استثناء سے قاعدۂ کلیہ ختم نہیں ہوتا.
(۲) البتہ اس قاعدۂ کلیہ کا کامل اطلاق صرف افراد پر انفرادی حیثیت سے ہوتا ہے. قوموں اور اُمتوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے. ان کی اجتماعی غلط روی اور مجموعی بداعمالی کی سزا اکثر و بیشتر اس دنیا میں دے دی جاتی ہے. چنانچہ بالکل صحیح فرمایا ہے علامہ اقبال نے کہ ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف!
اور قوموں اور اُمتوں پر وارد ہونے والے اس اجتماعی عذاب کا تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے‘ یعنی گناہ گاروں کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی عذاب کا نوالہ بن جاتے ہیں. جیسے فرمایا سورۃ الانفال کی آیت ۲۵ میں کہ:
وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۵﴾
’’اور ڈرو اُس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہیں ہو گا‘ اور جان رکھو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.‘‘
اگرچہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے ایک استثناء کی اُمید دلائی ہے‘ یعنی یہ کہ کسی قوم یا اُمت پر وارد ہونے والے اجتماعی عذاب سے ان لوگوں کے بچنے کی امید کی جا سکتی ہے جو نہ صرف یہ کہ خود بدی سے اجتناب کرتے رہیں‘ بلکہ اپنی قوم کو غلط روش اور اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیں‘ جیسے کہ سورۃ الاعراف میں اصحاب السبت پر نازل ہونے والے عذاب کے ضمن‘میں فرمایا:
اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْئِ (آیت ۱۶۵)
’’ ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو بدی سے روکتے رہے تھے.‘‘
(۳) قوموں اور اُمتوں پر دنیا میں نازل ہونے والے عذاب کی بدترین اور شدید ترین صورت وہ ہے جس سے وہ قومیں دو چار ہوئیں جن کی جانب اللہ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور انہوں نے ان پر اپنی دعوت و تبلیغ میں سعی ٔ بلیغ فرما کر اور حق کی قولی و عملی شہادت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھ کر اتمامِ حجت کا حق ادا کر دیا. اس کے باوجود اُن کی قوموں نے بحیثیتِ مجموعی ان کی دعوت کو ردّ کر دیا اور حق کی راہ اختیار نہ کی تو ان پر ’’عذابِ استیصال‘‘ نازل ہوا. یعنی صرف رسولوں اور اُن معدودے چند لوگوں کو بچا کر جو اُن پر ایمان لائے‘ باقی پوری پوری قوموں کی جڑ کاٹ ڈالی گئی‘ یعنی انہیں نیست و نابود اور نسیاً منسیاً کر دیا گیا. چنانچہ قرآن کا ہر قاری بخوبی واقف ہے کہ اسی عذابِ استیصال یا عذابِ اکبر کی مثالیں ہیں وہ عذاب جو قومِ نوحؑ‘ قومِ صالح ؑ،قومِ لوط ؑ‘ قومِ شعیب ؑ اورآلِ فرعون پر نازل ہوئے‘ جن کے نتیجے میں کہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ: کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ (ھود ۶۸ اور۹۵) ’’وہ ایسے ہو گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں!‘‘ کہیں فرمایا گیا کہ: لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ (الاحقاف:۲۵) ’’ان کے مکانوں اور مسکنوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘. یعنی ان کے مکین نیست و نابود ہو گئے! اور کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ: فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ (الانعام:۴۵) ’’پس ان ظالموں کی جڑ کاٹ ڈالی گئی‘‘ .
واضح رہے کہ اس نوع کے عذاب کے ضمن میں قرآن نے ایک سے زائد مرتبہ وضاحت اور صراحت کی ہے کہ یہ کسی رسول کی بعثت کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد ہی نازل کیا جاتا ہے. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں اسی نوع کے عذاب کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:
وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ﴿۱۵﴾
’’اور ہم عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں جب تک کسی رسول کو مبعوث نہ کر دیں.‘‘ اور سورۃ القصص کی آیت ۵۹ میں بھی یہی قاعدۂ کلیہ بیان ہوا کہ:
وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۚ
’’اورآپ کے رب ّکی شان یہ نہیں ہے کہ وہ بستیوں کو ہلاک کر دے جب تک ان کے مرکزی مقام پر ایک رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات سنا دے.‘‘
اس عذابِ استیصال یا عذابِ اکبر کے ضمن میں اللہ کی یہ سنت بھی قرآن میں بار بار بیان ہوئی ہے کہ جس قوم کی جانب اللہ تعالیٰ رسول کو مبعوث فرماتا تھا اس پر آخری اور بڑے عذاب سے قبل چھوٹے چھوٹے عذاب لوگوں کو جھنجوڑنے کی غرض سے نازل فرماتا تھا‘تاکہ جو جاگ سکتے ہوں جاگ جائیں اور جن میں اصلاح پذیری کا مادہ موجود ہو وہ اپنی اصلاح کر لیں. چنانچہ اسی سنت ِالٰہی کا ذکر ہے اختصار کے ساتھ سورۃ السجدۃ کی آیت ۲۱میں:
وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱﴾
’’اور ہم انہیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل‘ شاید کہ یہ رجوع کر لیں.‘‘
اور اسی کا تفصیلاً ذکر ہے سورۃ الانعام کی آیات ۴۱ تا ۴۵ اورسورۃ الاعراف کی آیات ۹۴ تا ۹۶ میں!
(۴) قوموں اور اُمتوں پر بحیثیت اجتماعی اس دنیا ہی میں نازل ہونے والے عذابِ الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے جو رسولوں کی اُمتوں پر ان کی غلط روی اور بداعمالی کے باعث نازل ہوتا ہے. یہ عذاب مقدم الذکر عذابِ استیصال سے اس اعتبار سے تو ہلکا ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے قوموں یا اُمتوں کا بالکل خاتمہ نہیں ہوتا‘ لیکن اس اعتبار سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ یہ وقفہ وقفہ سے مسلسل آتا رہتا ہے. اور جب کوئی مسلمان اُمت اس نوع کے عذاب میں مبتلا ہوتی ہے تو اس پر جو کیفیت طاری ہو جاتی ہے اسے منفی طور پر بیان کیا جائے تو وہ اس جہنمی انسان کی سی ہوتی ہے جو قرآن کے الفاظ میں ثُمَّ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی ﴿ؕ۱۳﴾ (الاعلیٰ) کا مصداق ہو جاتا ہے‘ یعنی’’نہ وہ زندہ ہی رہتا ہے‘ نہ اسے موت آتی ہے.‘‘ اور اگر اسے مثبت طور پر بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ؏ ’’زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا!‘‘ اس قسم کے عذاب کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ جو قوم کسی رسول اور خاص طور پر کسی صاحبِ کتاب و شریعت رسول کی اُمت ہونے کی مدعی ہوتی ہے وہ گویا زمین پر اللہ کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار ہوتی ہے. اب اگر اس کا طرزِ عمل اور رویہ اس کے دعویٰ کے برعکس ہو‘ اور وہ اپنے انفرادی اخلاق و اعمال اور سیرت و کردار اور اپنی اجتماعی تہذیب و ثقافت اور معاشی و سیاسی نظام میں کتابِ الٰہی کی تعلیمات اور شریعت خداوندی کے احکام سے مختلف ہی نہیں متضاد نقشہ پیش کرے تو یہ جرم ناقابل معافی ہے‘ اس لیے کہ اپنے اس طرز ِعمل کے باعث یہ نام نہاد مسلمان اُمت بجائے اس کے کہ خلق اور خالق کے مابین واسطہ (اُمت وسط) اور رابطے کا ذریعہ بنے‘ الٹی حجاب اور رکاوٹ بن جاتی ہے‘ اور اس کو دیکھ کر اللہ کے بندے اللہ کے دین کی جانب راغب ہونے کی بجائے الٹے اس سے متنفر ہو جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ سورۃ الصف کی آیات ۲‘ ۳ میں فرمایا گیا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾
’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ تمہارا یہ طرز ِعمل کہ جو زبان سے دعویٰ کرو اس پر عمل میں پورے نہ اُترو‘ اللہ کے غضب کو بہت بھڑکانے والا ہے!‘‘
اس نوع کے اجتماعی عذاب میں مبتلا ہونے والی اقوام یا اُمتوں کا ایک وصف مشترک‘ جسے قسمت کی ستم ظریفی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے‘ یہ ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ ہم تو اللہ کے بہت چہیتے اور لاڈلے ہیں‘ اور ہمارا معاملہ دوسرے عام لوگوں کا سا نہیں ہے ‘بلکہ ہم اللہ کے یہاں خصوصی اور ترجیحی سلوک کے مستحق ہیں. اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس جہل مرکب میں مبتلا قوم پر جیسے جیسے عذابِ الٰہی کے کوڑوں کی شدت بڑھتی جاتی ہے اس کے متذکرہ بالا زعم میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ گویا صورت یہ بن جاتی ہے کہ اِدھر دُرّے پر دُرّہ پڑتا جاتا ہے اور اُدھر غرہ پر غرہ بڑھتا چلا جاتا ہے. چنانچہ اس کی کلاسیکل مثال ہے سابقہ اُمت مسلمہ یعنی یہود اور نصاریٰ کا یہ قول جو سورۃ المائدۃ کی آیت ۱۸ میں نقل ہوا ہے کہ:
نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ
’’ہم تو اللہ کے بیٹے ہیں‘ اور اس کے نہایت چہیتے اور لاڈلے.‘‘
جس پر اللہ تعالیٰ نے نہایت عبرت انگیز تبصرہ فرمایا:
قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ ؕ
’’(اے نبیﷺ )! ان سے کہئے کہ پھر اللہ تم پر تمہارے گناہوں کی پاداش میں عذاب کیوں نازل فرماتا رہا ہے؟ بلکہ (اپنے اس زعم کے برعکس) تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے دوسرے جو اللہ نے پیدا فرمائے!‘‘
اسی طرح ان کا ایک مزعومہ عقیدہ یہ بھی تھا کہ:
لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ؕ (البقرۃ:۸۰)
’’ہمیں تو (جہنم کی) آگ چھو ہی نہیں سکتی سوائے گنتی کے چند دنوں کے.‘‘
جس پر نہایت فصیح و بلیغ تبصرہ وارد ہوا:
قُلۡ اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا فَلَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ عَہۡدَہٗۤ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۰﴾ (البقرۃ)
’’(اے نبیﷺ !ان سے پوچھئے) کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے (جس کے بارے میں تمہیں وثوق ہے) کہ اللہ ہر گز اپنے اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا؟ یا تم بغیر کسی علم کے اللہ کی جانب (غلط باتیں) منسوب کررہے ہو؟‘‘ اس نوع کے اجتماعی عذاب کے بارے میں یہ قاعدئہ کلیہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ؏ ’’جن کے رُتبے ہیں سوا‘ ان کی سوا مشکل ہے!‘‘ کے مطابق کسی اُمت کو جس قدر بلند درجۂ فضیلت حاصل ہوتا ہے اس کے غلط طرزِ عمل پر عذاب کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے. چنانچہ اس کی بھی نہایت نمایاں مثال قرآن حکیم میں سابقہ اُمت مسلمہ یعنی یہود ہی کے ضمن میں وارد ہوئی ہے‘ یعنی ان پر عذابِ الٰہی کی شدت کے بیان کے لیے جو الفاظ سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۱ میں وارد ہوئے ہیں کہ:
ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ
’’ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے.‘‘
ان سے کچھ ہی قبل یہ آیت مبارکہ بھی وارد ہوئی ہے کہ:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ (البقرۃ)
’’اے بنی اسرائیل! ذرا یاد کرو میرے ان انعامات و احسانات کو جو میں نے تم پر کیے‘ اور میں نے تو تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرما دی تھی.‘‘
پھر یہی معاملہ کسی مسلمان اُمت کے مختلف طبقات کا ہے کہ ان میں سے جسے جتنی زیادہ فضیلت حاصل ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ اس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے‘ اور غیر ذمہ‘دارانہ طرزِ عمل کے نتیجے میں اتنی ہی سخت سزا بھی اسے ملتی ہے.
(۵) مندرجہ بالا مباحث سے یہ نتیجہ از خود برآمد ہو جاتا ہے کہ جو قوم نہ کسی رسول کی اُمت ہونے کی مدعی ہو نہ ہی اس کی جانب اس کی یادداشت اور معلوم و محفوظ تاریخ کی حد تک کوئی رسول مبعوث ہوا ہو اس کے عذاب و ثواب اور جزا و سزا کا سارا معاملہ آخرت سے متعلق ہے. حیاتِ دُنیوی کی حد تک وہ حیوانات اور چرند و پرند کے مانند اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۲۰ کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ اور سورۃ الاحقاف کی آیت ۲۰ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا کے مطابق اللہ کی عطا اور جود و سخا کے دسترخوان سے کھا پی سکتے ہیں‘ اور دنیا کی نعمتوں اور لذتوں سے متمتع ہو سکتے ہیں. چنانچہ دنیا کی حد تک تو ان پر صرف سپنگلر کے فلسفۂ تاریخ کے مطابق اس قانونِ طبعی ہی کا اطلاق ہو گا کہ جیسے ہر فرد پیدا ہوتا ہے‘ پھر جوان ہوتا ہے‘ پھر بوڑھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے‘ ایسے ہی قومیں اور تہذیبیں بھی مختلف طبعی اَدوار سے گزر کر بالآخر ختم ہو جاتی ہیں. رہا حیاتِ اُخروی اور یومِ قیامت کے محاسبہ کا معاملہ تو وہ تو ہر فردِ نوعِ بشر کا اپنے اپنے نظریات و عقائد اور اخلاق و اعمال کے اعتبار سے طے ہونا ہی ہے. ۲۰؍اپریل ۱۹۹۳ء