اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (فاطر)’’کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ آیا ہو‘‘.
چنانچہ بعض روایات کے مطابق انبیائ علیہم السلام کی تعداد اتنی ہی رہی ہے جتنے مسلمان حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور ﷺ کے ساتھ تھے‘ یعنی ایک لاکھ چوبیس ہزار کے لگ بھگ‘ اور رسولوں کی کُل تعدا د اتنی تھی جتنی تعداد میں جان نثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوۂ بدر میں رسول اللہﷺ کے ہم رکاب تھے‘ یعنی تین سو تیرہ. واللہ اعلم!
اس سے قطع نظر کہ دنیا میں جو رسول مبعوث ہوئے ان کی کُل تعداد کتنی ہے‘ اس امر پر تقریباً اجماع ہے کہ ان میں سے پانچ سورۃ الاحقاف کی آیت ۳۵ میں وارد شدہ اصطلاح کے مطابق ’‘اولوالعزم‘‘ ہیں. یعنی حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام اور سید المرسلین حضرت محمد ﷺ . چنانچہ ان ہی کا تذکرہ سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ میں وارد ہوا ہے. پھر ان میں سے بھی صرف دو ہیں جنہیں کتاب اور شریعت سے نوازا گیا‘ یعنی حضرت موسیٰ علیہ سلام اور نبی اکرم ﷺ . اس لیے کہ حضرت نوح علیہ سلام کے ضمن میں تو کسی صحیفے کا ذکر تک کہیں موجود نہیں ہے.’’صحفِ ابراہیمؑ‘‘ کا ذکر اگرچہ قرآن میں ہے (سورۃ النجم ‘آیت ۳۷ اور سورۃ الاعلیٰ ‘آیت ۱۹)‘ لیکن غالباً انہیں ’’کتاب‘‘ اس لیے نہیں قرار دیا گیا کہ ان میں کوئی شریعت درج نہیں تھی. (راقم کو بعض لوگوں کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ ہندوؤں کے ویدوں اور اپنشدوں میں سے بعض صحف ابراہیم ؑ کی بگڑی ہوئی اور تحریف شدہ صورتیں ہیں‘ تاہم ان میں بھی اگرچہ توحید کا بیان تو بلند ترین سطح پر بھی موجود ہے‘ لیکن احکام اور شریعت کا کوئی وجود نہیں ہے!) اسی طرح زبور اور انجیل کو بھی اگرچہ عرفِ عام میں کتابیں کہہ دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مستقل بالذّات کتابیں نہیں تھیں‘ بلکہ تورات ہی کے ضمیموں کی حیثیت رکھتی تھیں. چنانچہ زبور صرف حمد اور مناجاتِ باری تعالیٰ کے ترانوں پر مشتمل ہے اور انجیل صرف حکمت اور موعظت پر! یہی وجہ ہے کہ سورۃ الزخرف کی آیت ۶۳ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ ’’میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں‘‘ .گویا وہ آسمانی کتابیں جن کے ذریعے نوعِ انسانی کو شریعت خداوندی عطا ہوئی ‘دو ہی ہیں‘ یعنی اوّلاً تورات جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دی گئی (بنی اسرائیل:۲ والسجدۃ:۲۳) اور ثانیاً قرآن حکیم جو پوری نوعِ انسانی کے لیے صرف ہدایت ہی نہیں ’’الہدیٰ‘‘ قرار پایا.
چنانچہ صاحب کتاب و شریعت مسلمان اُمتیں بھی پوری تاریخ انسانی کے دوران دو ہی ہوئی ہیں: ایک سابقہ اُمتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل اور دوسری موجودہ اُمت مسلمہ یعنی اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. اور چونکہ اِس وقت دنیا کے حالات تیزی کے ساتھ جو رُخ اختیار کر رہے ہیں اور مستقبل میں جو حوادث و واقعات پیش آنے والے ہیں ان کے ضمن میں ان دونوں اُمتوں کی باہمی آویزش اور اِن کے آخری انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قانونِ عذاب کو فیصلہ کن عامل کی حیثیت حاصل ہے جس پر اس سے قبل مفصل گفتگو ہو چکی ہے‘ لہٰذا ان دونوں کے بعض مشترک اور بعض مابہ الامتیاز خصائص کے علاوہ ان کے ماضی اور حال کا مختصر جائزہ ضروری ہے‘ تاکہ مستقبل کے بارے میں جو اشارات قرآن حکیم میں وارد ہوئے ہیں اور جو تفصیلی پیشین گوئیاں احادیث نبویہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں بیان ہوئی ہیں ان کو صحیح پس منظر میں سمجھاجا سکے. اور اس طرح ایک جانب حدیثِ نبویؐ اور جناب صادق و مصدوق ﷺ کی پیشین گوئیوں کی عظمت اور حقانیت پر دل مطمئن ہو جائیں‘ اور دوسری جانب پیش آنے والے حوادث و واقعات پر ذہن کا ردِّ عمل تحیر اور استعجاب کا نہ ہو‘ بلکہ وہ ہو جو سرمد کے اس مصرعے میں بیان ہوا کہ: ؏ ’’بیابیامن ترا خوب می شناسم!‘‘ یعنی آؤ کہ میں تمہیں خوب پہچانتا ہوں!
بنی اسرائیل کی تاریخ کا آغاز اگرچہ ویسے تو لگ بھگ ۱۸۰۰ قبل مسیح ؑمیں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے پوتے حضرت یعقوب علیہ سلام کے زمانے سے ہوتا ہے‘ اس لیے کہ انہی کا لقب ’’اسرائیل‘‘ یعنی ’’اللہ کا بندہ‘‘ تھا اور بنی اسرائیل ان ہی کی اولاد ہیں‘ لیکن ان کو اُمتِ مسلمہ کی حیثیت تقریباً۱۳۵۰ ق م میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں حاصل ہوئی جب انہیں تورات عطا ہوئی اور ان سے کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے تھامنے اور شریعت خداوندی پر کاربند رہنے کا وہ پختہ عہد و میثاق لیا گیا جس کا ذکر قرآن مجید میں بار بار بہت شدّو مد سے آتا ہے. بہرحال اُس وقت سے لے کر ساتویں صدی عیسوی کے آغاز تک جب خاتم النبیین اور سید المرسلین محمدٌ رسول اللہﷺ کی بعثت ہوئی‘ گویا لگ بھگ دو ہزار برس تک بنی اسرائیل ہی کو اس دنیا میں کتاب ِالٰہی کی امین اور شریعت خداوندی کی حامل اُمتِ مسلمہ کی حیثیت حاصل رہی. تاآنکہ ۶۲۴ء میں تحویل قبلہ کو بنی اسرائیل کی معزولی اور نئی اُمت یعنی اُمت محمدﷺ کے اس منصب پر فائز کیے جانے کی علامت بنا دیا گیا. چنانچہ اس کے بعد سے تا قیامِ قیامت اُمت محمدﷺ ہی کتاب و شریعت کی حامل و امین اور روئے ارضی پر اللہ کی نمائندگی کی ذمہ دار ہے. کتابِ الٰہی کے امین اور شریعت خداوندی کے حامل ہونا بجائے خود ؎
’’یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں!‘‘
کے مصداق ایک بہت بڑا درجۂ فضیلت ہے ‘جو اِن دونوں اُمتوں کے مابین قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں دوبار یہ آیت مبارکہ سابقہ اُمتِ مسلمہ کے ضمن میں وارد ہوئی:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (البقرۃ:۴۷ و ۱۲۲)
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا‘ اور میں نے تو تمہیں تمام جہانوں (یعنی تمام جہان والوں) پر فضیلت دے دی تھی!‘‘
لیکن اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو ایک مزید درجۂ فضیلت اس بنا پر حاصل ہے کہ چونکہ نبی اکرم ﷺ پر نبوت و رسالت اپنے نقطۂ عروج اور درجۂ کمال کو پہنچ کر ختم ہوگئیں اور آپ ﷺ کی بعثت تمام سابق انبیاء و رُسل ؑ کے مانند صرف اپنی اپنی قوموں کی جانب نہیں‘ بلکہ پوری نوعِ انسانی کی جانب ہوئی‘ جیسے کہ فرمایا سورۂ سبا کی آیت ۲۸ میں کہ: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ’’اورہم نے نہیں بھیجاآپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر!‘‘ لہذا آپ ﷺ کی اُمت گویااجتماعی طو رپر تا قیامِ قیامت فریضۂ رسالت کی امین بھی ہے. یعنی اس کی ذمہ داری سابقہ اُمت مسلمہ کی طرح صر ف یہی نہیں ہے کہ خود کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے تھامے رہے اور شریعت خداوندی پر سختی سے کار بند رہے‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ پوری نوعِ انسانی تک رسالت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے پیغام کو پہنچانے کا حق ادا کرے او رپورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین کے غلبے یعنی عالمی سطح پر حکومت الٰہیہ یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کے قیام کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے. اس لیے کہ یہی از روئے قرآن نبی اکرم ﷺ کا مقصد ِبعثت ہے. جیسے کہ قرآن حکیم میں تین بار فرمایا گیا:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖٖ
(التوبۃ: ۳۳‘ الفتح: ۲۸‘ الصّف: ۹)
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ﷺ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق (اسلام) دے کر تاکہ غالب کریں اسے (دین حق کو) پورے کے پورے دین (نظامِ زندگی) پر.‘‘
یہی وجہ ہے کہ اُمت محمدﷺ کو ’’اُمت وسط‘‘ بھی قرار دیا گیا جس کا فرض پوری نوعِ انسانی پر اللہ اور رسول ﷺ کی جانب سے شہادت یعنی اتمامِ حجت کا فریضہ ادا کرنا ہے (۱) اور’’خیر اُمت‘‘ یعنی بہترین اُمت کا خطاب بھی دیا گیا ’’جو پوری نوعِ انسانی کے لیے برپا کی گئی ہے‘‘. (۲) بقول علامہ اقبال: ؎
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے!
درجۂ فضیلت کے اس فرق و امتیاز کے ساتھ ساتھ سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کے مابین ایک اور فرق و تفاوت یہ ہے کہ جہاں سابقہ اُمت مسلمہ ایک ’’یک نسلی اُمت‘‘ تھی وہاں چونکہ آنحضور ﷺ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کی جانب ہے‘ لہذا موجودہ اُمت مسلمہ ہمہ نسلی اور ہمہ قومی(multinational) اُمت ہے.مزید برآں درجۂ فضیلت کے اعتبار سے خود یہ بھی دو حصوں میں منقسم ہے‘ جن کا صراحت کے ساتھ ذکر سورۃ الجمعہ میں کر دیا گیا ہے:ایک ’’اُمیین‘‘ یعنی بنی اسمٰعیل ؑ اور ان کے تابع اہل عرب اور دوسرے ’’آخرین‘‘ یعنی ان کے سوا تمام نسلوں اور جملہ اقوامِ عالم میں سے ایمان لانے والے مسلمان! اور ان میں سے مقدم الذکر کو اِن دو اسباب کی بنا پر بہت بڑا درجۂ فضیلت حاصل ہے کہ (۱) خود نبی اکرم ﷺ ان ہی میں سے تھے. جیسے کہ فرمایا سورۃ الجمعہ کی دوسری آیت میں: (۱) وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ۱(البقرۃ : ۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت (بہترین اُمت) بنایا‘ تاکہ تم گواہ ہو جاؤ لوگوں پر‘ اور رسول گواہ ہو جائیں تم پر.‘‘
(۲) کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (آل عمران :۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر پختہ ایمان رکھتے ہو.‘ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ
’’وہی ہے (اللہ) جس نے اٹھایا امیین میں ایک رسول (محمدﷺ ) ان ہی میں سے!‘‘
چنانچہ یہ تو ؏ ’’یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا!‘‘ کے مصداق وہ فضیلت ہے جس پر اہل عرب جتنا ناز کریں کم ہے! او ر(۲) یہ کہ اللہ نے ان ہی کی زبان میں اپنا آخری کلام اور نوعِ انسانی کے نام اپنا آخری پیغام نازل فرمایا‘ جس کا فہم ان کے لیے نہایت آسان ہے. بقول علامہ اقبال: ؎
نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حامل اُو رحمتٌ لّلعالمیں!
یہ پوری بحث اس اعتبار سے تو یقینا بڑی خوش آئند بھی ہے اور دل پسند بھی کہ ہمیں بحیثیت اُمت محمد ﷺ سابقہ اُمت مسلمہ پر بڑی فضیلت حاصل ہے. لیکن ایک دوسرے پہلو سے اس کا ایک منطقی نتیجہ نہایت تلخ ہے‘ یعنی اوّلاً ؏ ’’جن کے رتبے ہیں سوا‘ اُن کی سوا مشکل ہے!‘‘ کے عام اور معقول اصول کے مطابق اور ثانیاً خود قرآن حکیم کی اس نص کی رو سے جو سورۃ الاحزاب میں نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہراتl سے خطاب کے ضمن میں وارد ہوئی ہے ‘یعنی : یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (آیت۳۲) ’’اے نبی کی گھر والیو! تم عام عورتوں کے مانند نہیں ہو‘‘ اور مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ ؕ (آیت ۳۰) ’’اگر تم میں سے کسی نے کسی صریح بے حیائی کا ارتکاب کیا تو اسے (دوسروں کے مقابلے میں) دگنا عذاب دیا جائے گا‘‘.یہ ناقابل تردید نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کسی جرم کی جو سزا بنی اسرائیل کو دی گئی اسی جرم کا ارتکاب موجودہ اُمت مسلمہ کرے گی تو اس کے مقابلے میں دوہرے تہرے ہی نہیں بیسیوں گنا عذاب کی مستحق ہو گی. اور خود اُمتِ مسلمہ میں سے سورۃ النور میں وارد شدہ الفاظ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ (آیت ۱۱) ’’اور وہ جو والی ہوا اُس کے سب سے بڑے حصے کا‘‘ کے مطابق اس عذاب کی شدید ترین صورت کے مستحق مسلمانانِ عالم عرب ہوں گے! مندرجہ بالا اصولی نتائج کو ذہن میں جاگزیں کرنے کے بعد اب آیئے کہ پہلے ہم سابقہ اُمتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی تاریخ کے بعثت نبوی (ﷺ ) تک کے دَور پر ایک نظر ڈال لیں.
بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس دو ہزار سالہ دَور کا وہ خلاصہ جو نئی اُمت مسلمہ یعنی اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی سبق آموزی اور عبرت پذیری کے لیے کافی تھا‘ کمالِ فصاحت اور غایت اختصار کے ساتھ قرآن حکیم میں سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی چھ (۲ تا۷) اور آخری رکوع کی چار (۱۰۱ تا ۱۰۴) یعنی کُل دس آیات میں بیان کر دیا گیا ہے‘ جس کالبّ لباب یہ ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کے زمانے تک بنی اسرائیل پر چار دَور گزر چکے تھے: دو دَور عروج کے ‘جن کے دوران ان کا طرزِ عمل بھی دینی و اخلاقی اعتبار سے درست رہا اور انہیں دنیا میں عزت و سربلندی بھی حاصل رہی اور وہ کثرتِ اموال و اولاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھی بہرہ ور ہوتے رہے اور دو ہی دَور زوال کے جن کے دوران انہوں نے نفس پرستی اور بغاوت کی روش اختیار کی‘ جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور غیر اقوام کے ہاتھوں وہ خود بھی ذلیل و خوار اور مفتوح و مغلوب ہوئے ‘اور ان کے دینی و روحانی مرکز یعنی ہیکلِ سلیمانی کی حرمت بھی پامال ہوئی.تاہم اگر اس کی کسی قدر وضاحت تاریخی اور زمانی ترتیب کے ساتھ کی جائے تو وہ حسب ذیل ہے:
۱) ان کے پہلے دورِ عروج کا آغاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفۂ اوّل حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کی فتح سے ہوا ‘اور تقریباً تین سو سال تک نشیب و فراز کے مراحل طے کرتا ہوا یہ دورِ سعادت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے عہدِحکومت میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا ‘جو تاریخ بنی اسرائیل کے عہدِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے.
۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی ان کے پہلے دورِ زوال کا آغاز ہو گیا‘ اس لیے کہ فوراً ہی ان کی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہو گئی. بہرحال تقریباً تین سو سال ہی میں یہ عہد زوال بھی اپنی انتہا کو پہنچ گیا. چنانچہ اوّلاً شمال سے آشوریوں نے شمالی سلطنت اسرائیل کو تاخت و تاراج کیا اور بالآخر ۵۸۷ قبل مسیح ؑمیں مشرق (عراق) سے آنے والے بخت نصر (Nebukadnezar) کے حملے نے نہ صرف یہ کہ پوری جنوبی سلطنت یہودیہ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا بلکہ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ لاکھوں افراد کو قتل کیا‘ چھ لاکھ یہودی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں کی طرح ہانکتا ہوابابل لے گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیکل سلیمانی کو کلیۃً مسمار کر دیا‘ حتیٰ کہ اس کی بنیادیں تک کھود ڈالیں! بابل کی لگ بھگ سو سالہ اسیری کا دَور بنی اسرائیل کی ذلت و رسوائی کا شدید ترین زمانہ ہے.
۳) بنی اسرائیل کے دوسرے دورِ عروج کا آغاز بابل کی اسیری سے شہنشاہِ فارس سائرس یا کیخورس یا ذوالقرنین کے ہاتھوں نجات کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل حضرت عزیر علیہ السلام کی تجدیدی و اصلاحی مساعی سے ہوا‘ اور دوسری خوشحالی یا سر بلندی کا یہ دَور بھی لگ بھگ تین سو سال جاری رہا ‘اور اس کا مظہر اعظم وہ مکابی سلطنت تھی جو تقریباً ۱۷۰ ق م سے ۶۷ ق م تک نہایت دبدبہ اور شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی اور جس نے ایک بار پھر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے دَور کی یاد تازہ کر دی.
۴) بنی اسرائیل کا دوسرا دَورِ زوال ۶۳ ق م میں رومی فاتح پومپئی کے ہاتھوں یروشلم کی فتح سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے. اس کے دوران ان کی تاریخ میں دوسری بار ان پر عذابِ الٰہی کے سخت کوڑے برسے. چنانچہ ۷۰ء میں رومی جرنیل ٹائیٹس نے دوبارہ یروشلم شہر اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کیا اور ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ہزار یہودیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا اور ۶۷ ہزار کو غلام بنا لیا. اور اس دن سے جو یہودی اثر و رسوخ سر زمین فلسطین سے ختم ہوا تو لگ بھگ انیس سو برس تک انہیں وہاں سر اُٹھانے کا موقع نہ ملا‘ بلکہ پورے چھ سو برس تو اس سر زمین میں ان کا داخلہ بھی بند رہا. رہا ان کا ہیکل مقدس تو وہ آج تک دوبارہ تعمیر نہ ہو سکا. بعد میں رومی شہنشاہ ہیڈ ریان نے یروشلم شہر کو دوبارہ تعمیر کیا تو اس کا نام بھی یروشلم نہیں ’’ایلیا‘‘ رکھا. ۲۶؍اپریل ۱۹۹۳ء