بیسویں صدی عیسوی ....سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتیں
بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بھی تاریخ میں یادگار رہے گی کہ اس کے اوائل میں عظیم سلطنت عثمانیہ کے پرزے اڑ گئے اور اواخر میں عظیم سوویت یونین کی دھجیاں بکھر گئیں‘ لیکن ہمارے موضوع کے اعتبار سے اہم تر بات یہ ہے کہ اس کے دوران معزول شدہ اور موجودہ مسلم اُمتوں‘ یعنی یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے ضمن میں دو بالکل مخالف اور متضاد کیفیات کا عمل دخل بالکل اسی شان کے ساتھ جاری رہا جو سورۃ الرحمن کی آیات ۱۹‘۲۰ میں بیان ہوئی ہیں‘ یعنی: مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾ ’’چلائے دو دریا ایک دوسرے سے متصل ‘لیکن ان کے مابین ایک پردہ حائل ہے جس کے باعث وہ ایک دوسرے پر غالب نہیں آ سکتے‘‘ یعنی ایک جانب ان دونوں پر اللہ کے عذاب کے دورِ ثانی کا وہ سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ بعض اعتبارات سے شدید تر ہو گیا جو یہودیوں کے معاملے میں تو لگ بھگ دو ہزار برس سے جاری تھا اور مسلمانوں کے معاملے میں بھی کئی صدیوں سے چلا آ رہا تھا‘ لیکن دوسری جانب ان دونوں ہی اُمتوں میں ایک احیائی عمل بھی شروع ہوا اور دونوں ہی بعض اعتبارات سے تیزی کے ساتھ ترقی اور عروج کی جانب بڑھتی نظر آئیں.
واضح رہے کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کے قانونِ عذاب کی جو تفصیل بیان ہو چکی ہے اس کے مطابق یہودی اب سے لگ بھگ دو ہزار برس قبل عذابِ استیصال کے مستحق ہو چکے تھے‘ اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ان کی جانب رسول کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے‘ جیسے کہ سورۂ آل عمران کی آیت ۴۹ اور سورۃ الصف کی آیت ۶ میں صراحتاً مذکور ہے‘ لیکن یہودیوں نے نہ صرف یہ کہ ان کا انکار کیا‘بلکہ ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم صدیقہ سلامٌ علیہا پر بدکاری کا الزام عائد کیا‘ اور خود آنجنابؑ کو جادوگری اور ارتداد کے الزامات کے تحت واجب القتل قرار دیا اور اپنے بس پڑتے تو انہیں سولی پر چڑھوا کر ہی دم لیا. یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپؑ کو زندہ آسمان پر اٹھالیا اور (انجیل برنباس کے مطابق) آپؑ کی صورت میں درحقیقت آپؑ کے اُس غدار حواری یہوداہ اسکریوتی کو سولی چڑھوا دیا جس نے سونے کے تیس سکوں کے عوض مخبری کر کے آپ ؑکو گرفتار کرایا تھا. تاہم ایک خاص حکمت کے تحت (جس کا ذکر بعد میں آئے گا) اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس آخری سزا کی تنفیذ کو مؤخر رکھا.
سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی آیت ۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے موقع پر اللہ نے آپ ؐ کی رحمتٌ للعالمینی کے صدقے یہود کو بھی ایک موقع توبہ کا عنایت فرمایا تھا‘ بفحوائے: عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ یعنی ’’تمہارا ربّ اب بھی تم پر رحم فرمانے کے لیے آمادہ ہے‘ لیکن اگر تم نے سابقہ روش برقرار رکھی تو ہم بھی وہی کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں!‘‘ یہ گویا جدید عدالتی اصطلاح میں ایک رحم کی اپیل کا آخری موقع تھا جو یہودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث گنوا دیا‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آخری فیصلہ صادر فرما دیا:
وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبۡعَثَنَّ عَلَیۡہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ یَّسُوۡمُہُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ؕ (الاعراف : ۱۶۷)
’’اورجب اعلان کر دیا تیرے ربّ نے کہ وہ قیامت کے دن تک ان پر لازماً ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیتے رہیں گے.‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا سب سے نمایاں مظہر اس بیسویں صدی کے وسط میں سامنے آیا جب ہٹلر نے نہ صرف جرمنی بلکہ مشرقی یورپ کے تقریباً تمام ممالک کے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ایسے سپیشل گیس چیمبرز اور ایکسٹر مینیشن پلانٹس کے ذریعے نیست و نابود کیا جن کی نظیر غالباً پوری انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی. لیکن دوسری جانب یہ معجزہ بھی اسی بیسویں صدی میں ظاہر ہوا کہ جو ملعون ومغضوب قوم دو ہزار برس سے در بدر بھٹک رہی تھی اور کہیں امان نہیں پا رہی تھی اُسے دوبارہ اپنے خوابوں کی سرزمین یعنی فلسطین میں پاؤں جما نے کا موقع ملا. چنانچہ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے عربوں سے جو بغاوت ترکوں کے خلاف کرائی تھی‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا بلکہ مسلمانانِ عالم کی وحدتِ ملی کا نشان یعنی خلافت کا ادارہ بھی ختم ہو گیا‘ اس کا ’’انعام‘‘ انہیں حکومت برطانیہ کی جانب سے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کے ’’اعلان بالفور‘‘ کی صورت میں ملا‘ جس کے نتیجے میں پہلے سرزمین فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری ہوئی اور بالآخر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کا خنجر اُن کے سینے میں پیوست کر دیا گیا. گویا کہ یورپی استعمار کی صورت میں موجودہ اُمت مسلمہ پر اللہ کی جو سزا گزشتہ تین صدیوں سے تدریجاً بڑھ رہی تھی اس کے آخری اور شدید ترین دَور کا ’’آغاز‘‘ ہو گیا. یعنی اُمت مسلمہ کے افضل ترین حصے یعنی عربوں پر اللہ کی ایک مغضوب اور ملعون قوم کے ہاتھوں ذلت آمیز شکستوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ‘جس کی پہلی قسط تو ۱۹۴۸ء ہی میں مل گئی تھی جب انگریزی فوج کے فلسطین سے نکلتے ہی عربوں اور یہودیوں میں جنگ شروع ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہودیوں کو کوئی نقصان پہنچتا ‘وہ اس رقبے سے بھی زیادہ پر قابض ہو گئے جو انہیں تقسیم کے فیصلے کے تحت ملا تھا.
’’ا ُمّیین‘‘ پر اللہ کے عذاب کا دوسرا اور شدید تر کوڑا لگ بھگ بیس برس بعد ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ میں نہایت ذلت آمیز ہی نہیں‘ حد درجہ شرمناک شکست کی صورت میں پڑا‘ جس کے نتیجے میں ۱۹۴۸ء میں قائم ہونے والے اسرائیل نے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کی جانب مزید پیش قدمی کر لی اور مصر و شام اور اردن سے اضافی علاقے ہتھیا لیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے مذہبی مرکز یروشلم پر بھی قبضہ حاصل کر لیا. ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!‘‘
قصہ مختصر‘ بیسویں صدی عیسوی میں ایک جانب سابقہ اور معزول شدہ اُمت مسلمہ یعنی یہودیوں پر اللہ کے آخری عذابِ استیصال کا ریہرسل یا ٹریلر بھی ’’ہالوکاسٹ‘‘ کی صورت میں سامنے آ گیا‘ اور دوسری طرف ان کے اس آخری عروج کی جانب بھی نمایاں پیش قدمی ہو گئی جس کا کوئی سان گمان بھی ایک صدی قبل نہیں ہو سکتا تھا.
یہی معاملہ موجودہ اُمت مسلمہ کے ساتھ پیش آیا کہ جہاں ایک جانب اس صدی کے آغازمیں سلطنت عثمانیہ اور خلافت اسلامی کے خاتمے‘ اور پھر ۱۹۶۷ء میں عربوں کی عبرتناک ہزیمت اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور ۱۹۷۱ء میں ’’آخرین‘‘ کے اہم ترین اور عظیم ترین ملک یعنی پاکستان کی شکست و ریخت اور ان ہندوؤں کے ہاتھوں شرمناک ہزیمت کی صورت میں عذاب ِ الٰہی کے سائے مزید گہرے ہو گئے جن پر مسلمانوں نے سینکڑوں برس حکومت کی تھی‘ وہاں دوسری جانب یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس صدی کے ربع اوّل کے خاتمے کے لگ بھگ جب اُمت کے ایک حساس اور دردمند فرد کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی یہ درد انگیز صدا ایک تلخ حقیقت کا روپ دھار چکی تھی کہ ؎
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
رحمت ِ خداوندی میں جوش آ چکا تھا اور تاریخ بالقوہ ایک کروٹ لے چکی تھی ‘جس کے نتیجے میں پورے عالم اسلام میں ایک احیائی عمل شروع ہو گیا‘ جس کا کسی قدر تفصیلی جائزہ بہت ضروری ہے ‘تاکہ مایوسی کے سائے زیادہ گہرے نہ ہوں اور حالات کے تاریک رُخ کے ساتھ ساتھ روشن پہلو بھی نگاہوں کے سامنے موجود رہے.
اس احیائی عمل کے بارے میں بعض بنیادی حقائق ذہن نشین رہنے چاہئیں. مثلاً ایک یہ کہ یہ کوئی سادہ اور بسیط عمل نہیں ہے ‘بلکہ اس کے متعدد گوشے ہیں‘ جن میں سے ہرایک میں اولوالعزم افراد اور جماعتیں برسرکار ہیں‘ اور جو بظاہر ایک دوسرے سے جدااورمختلف بلکہ بعض پہلوؤں کے اعتبار سے متضاد ہونے کے باوجود اس وسیع تر احیائی عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہیں. دوسرے یہ کہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اورملت اسلامی کی تجدید کا یہ کام دس بیس برس میں مکمل ہونے والا نہیں‘ بلکہ سورۃ الانشقاق کی آیت : لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ یعنی ’’تم لازماً چڑھو گے درجہ بدرجہ‘‘ کے مصداق تدریجاً بہت سے مراتب و مراحل سے گزر کر ہی پایۂ تکمیل کو پہنچے گا. لہٰذا اس ارتقائی عمل کا ہر درجہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے‘ اور چاہے بعد کے مراحل میں پہلوں کا کام بہت حقیر بلکہ کسی قدر غلط بھی نظر آئے‘ اپنے اپنے دَور کے اعتبار سے اس کی اہمیت وو قعت سے بالکلیہ انکار ممکن نہیں. تیسرے یہ کہ اس ہمہ گیر تجدیدی جدوجہد میں اگرچہ افراد کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے‘ بقول علامہ اقبال: ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
تاہم جماعتوں اور تنظیموں کے مقابلے میں کم تر ہے. پھر جماعتیں بھی تحریکوں کی وسعت میں گم ہو جاتی ہیں اور بالآخر تمام تحریکیں بھی اس وسیع احیائی عمل کی پنہائیوں میں گم ہوجاتی ہیں جو ان سب کو محیط ہے.
اس احیائی عمل کا اوّلین مرحلہ مسلمان اقوام کا مغربی استعمار کے براہِ راست تسلط سے نجات کا حصول تھا جو بحمد اللہ گزشتہ چالیس پچاس سال کے دوران تقریباً مکمل ہو چکا ہے‘ اور اگرچہ اب بھی ہم مغرب کی علمی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی غلامی میں مبتلا ہیں اور اقوامِ مغرب کی سائنسی و تکنیکی بالادستی کے باعث بہت سے پہلوئوں سے ان کے دست نگر بھی ہیں ‘ تاہم خدا کا شکر ہے کہ ایک قضیۂ فلسطین سے قطع نظر اور صرف کشمیر اور اریٹیریا کے علاوہ پورے کرۂ ارضی پر مسلم اکثریت کا کوئی علاقہ براہِ راست غلامی و محکومی کی لعنت میں گرفتار نہیں رہا.
خالص اصولی و نظریاتی اور تصوریت پسندانہ نقطۂ نظر سے تو ’’مسلمان اقوام‘‘ کی اصطلاح ہی قطعاً غلط ہے‘ اس لیے کہ ازروئے قرآن و حدیث مسلمانوں کی حیثیت ایک جماعت یا اُمت یا حزب کی ہے نہ کہ قوم کی‘ لیکن واقعیت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک جماعت یا اُمت یا حزب کا کردار تو بہت پہلے ترک کر دیا تھا اور بالفعل ایک قوم ہی کی حیثیت اختیار کر لی تھی. البتہ وحدتِ ملی کا تصور اس صدی کے آغاز تک برقرار تھا‘ لیکن اس صدی کے رُبع اوّل کے دوران مغربی استعمار کے ہتھکنڈوں نے اسے بھی ختم کر کے رکھ دیا تھا ‘اور اِس وقت فی الواقع روئے ارضی پر کوئی ایک اُمت مسلمہ آباد نہیں ہے‘ بلکہ بہت سی مسلمان اقوام آباد ہیں.
اسی طرح خالص تصوریت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ؏ ’’نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے‘‘ کے مصداق مسلمانوں کی آزادی اور خود مختاری کا احیائے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ لیکن واقعیت پسندانہ نگاہ سے دیکھئے تو مستقبل کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی علمبرداری کی سعادت کسی بالکل ہی نئی قوم کے حوالے فرما دے اور یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ (محمدؐ :۳۸) یعنی ’’بدل دے تمہاری جگہ کسی اور قوم کو‘‘کی شان دوبارہ ظاہر ہو یکن بحالاتِ موجودہ تو ؏ ’’کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے‘ جام رہے‘‘ کے مصداق اسلام کا مستقبل موجودہ مسلمان اقوام ہی کے ساتھ وابستہ ہے اور دونوں باہم لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں.
اندریں حالات مسلمان اقوام کا آزادی و خود مختاری کی نعمت سے ہمکنار ہونا یقینا احیائے اسلام ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ‘اور جن تحریکوں کے ذریعے یہ مشکل مرحلہ سر ہوا ہے ان کی سعی بھی اسلام کی نشأۃِ ثانیہ ہی کی جدوجہد کا جزو قرار پائے گی. رہا یہ شبہ کہ ان میں سے اکثر کے قائدین اور زعماء کا دین و مذہب کے ساتھ کوئی واقعی اور عملی تعلق نہ تھا‘ تو اسی کا جواب ہے نبی اکرم ﷺ کے ان الفاظِ مبارکہ میں کہ اِنَّ اللّٰہَ لَـیُؤَیِّدُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت غیر متقی انسانوں سے بھی لے لیتاہے‘‘ . (بخاری ‘کتاب الجہاد‘ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اس ضمن میں ایک اور حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اگرچہ مختلف مسلمان ممالک میں حصولِ آزادی کی تحریکوں کی تقویت کے لیے جن علاقائی یا نسلی عصبیتوں کو استعمال کیا گیا انہیں بھی خاص اصولی اور نظری اعتبار سے اسلام کے نظامِ فکر کے ساتھ سوائے تضاد کے کوئی نسبت حاصل نہیں ہے‘ لیکن عالم واقعہ میں اس کے سوا کوئی چارۂ کار موجود نہ تھا‘ اس لیے کہ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا ذہنی و قلبی رشتہ اتنا قوی نہ رہا تھا کہ اسے کسی جاندار اور فعال تحریک کی اساس بنایا جا سکتا. اور حصولِ استقلال کے لیے جس مؤثر مزاحمت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بنیاد خیالی یا جذباتی نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی اساسات ہی پر رکھی جا سکتی ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اگر ترک نیشنلزم کا جذبہ فوری طور پر بیدار نہ ہو گیا ہوتا تو شاید آج ترکی کا نام و نشان بھی صفحۂ ارضی پر موجود نہ ہوتا. اسی طرح اسلام سے جتنا کچھ حقیقی اور واقعی تعلق اِس وقت مسلمانانِ عرب کو ہے وہ کسے معلوم نہیں! اندریں حالات عرب نیشنلزم ہی یورپی سامراج کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کے لیے واحد ممکن بنیاد بن سکتا تھا‘ اور ایک وقتی ضرورت اور دفاعی تدبیر کی حد تک اس کے استعمال میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے‘ بشرطیکہ اسے نظامِ فکر کی مستقل اساس کے طور پر قبول نہ کر لیا جائے ‘اور حصولِ آزادی کے عبوری مقصد کی تکمیل کے بعد صحیح اسلامی فکر اور وحدتِ ملّی کے شعور و احساس کو اجاگر کیا جائے.
اس پس منظر میں دیکھئے تو تحریک پاکستان کا معاملہ بالکل منفرد نظر آتا ہے. برصغیر کے مسلمان بھی اگر برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہندی قومیت کی اساس پر غیر مسلموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کرتے تو اس کے لیے بھی وجہ جواز موجود تھی. (چنانچہ جمعیت علماء ہند کی سیاسی جدوجہد اسی اصول پر مبنی تھی‘ بلکہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے اپنی خود نوشت سوانح ’’نقشِ حیات‘‘ میں تو ثابت کیا ہے کہ خود مجاہد کبیر حضرت سید احمد بریلویؒ مسلمانانِ پنجاب کو ’’سکھا شاہی‘‘ سے نجات دلانے کے بعد اسی اساس پر انگریزوں کے خلاف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے تھے!) لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ یہاں کے مخصوص حالات کے باعث مسلمانانِ ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز ’’مسلم قومیت‘‘ کی اساس پر کیا‘ جس کے نتیجے میں وہ ملک وجود میں آیا‘ جو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی طرح جو اپنا نام ’’سلمان بن اسلام‘‘ بتایا کرتے تھے‘ صرف اور صرف ’’فرزندِ اسلام‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے قیام کے لیے کوئی وجہ جواز سوائے اسلام کے موجود نہیں ہے. گویا پاکستان ؏ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ ‘‘ (ﷺ ) کے مصداق اپنی پیدائش اور ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے تمام مسلمان ممالک سے ایک قدم آگے ہے.
مسلمانانِ ہند کی سیاسی جدوجہد کو اس رُخ پر ڈالنے والے اسباب و عوامل میں سلبی و منفی طو رپر سب سے زیادہ دخل ہندوؤ ں کی روایتی تنگ نظری اور تنگ دلی اور اس سے بھی بڑھ کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ شکست کا انتقام لینے کے اس جذبے کو حاصل ہے جو اُن کے سینوں میں کھولتے ہوئے لاوے کی طرح پک رہا تھا. اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گویا ان کا یہ طرزِ عمل بھی اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے ممدو معاون بن گیا اور ہم اپنے سابق ابنائے وطن کی خدمت میں بجا طور پر عرض کر سکتے ہیں کہ ؎
تو نے اچھا ہی کیا دوست سہارا نہ دیا
مجھ کو لغزش کی ضرورت تھی سنبھلنے کے لیے
مثبت اسباب کے ضمن میں ایک تو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمانانِ ہند کے دلوں میں پہلے بھی جذبۂ ملی باقی تمام دنیا کے مسلمانوں سے زیادہ تھا ‘جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تنسیخ خلافت پر جس قدر شدید ردّ عمل یہاں ظاہر ہوا اس کا عُشر عشیر بھی کہیں اور نہیں ہوا ‘ حتیٰ کہ ایک وقت تھا کہ برصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں سب کی مشترک سیاسی جدوجہد کا عنوان ہی ’’تحریک خلافت‘‘ بن گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اس خطے میں علامہ اقبال مرحوم ایسی عظیم شخصیت پید اہوئی جس کی انتہائی پُردرد اور پُرتأثیر حدی خوانی نے قافلۂ ملی کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا اور مسلمانانِ ہند کو جذبۂ ملی سے سرشار کر دیا. حقیقت یہ ہے کہ ان کی ملی شاعری کو اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور تجدید و احیائے دین کی وسیع الاطراف جدوجہد میں ایک اہم مقام حاصل ہے. اور اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ۱۹۷۴ء میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان اور خاص طور پر اس شہرلاہور میں انعقاد بہت معنی خیز تھا ‘ جہاں قریباً نصف صدی قبل قراردادِ پاکستان بھی منظور ہوئی تھی اور جہاں دورِ حاضر میں قافلۂ ملت اسلامیہ کا وہ سب سے بڑا حدی خواں بھی مدفون ہے جو آخری دم تک یہ صدا لگاتا رہا کہ: ؎
بیا تا کارِ ایں اُمت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجد شہر
دلے در سینۂ مُلّا گدازیم
اس ہمہ جہتی احیائی عمل کا دوسرا اہم گوشہ وہ ہے جس میں علمائے کرام کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں سرگرم کار اور اپنے اپنے مخصوص انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف و مشغول ہیں‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی برصغیر پاک و ہند کو پورے عالم اسلام میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے. چنانچہ علماء دین کو جس قدراثرورسوخ یہاں کے مسلمان عوام پر حاصل ہے وہ دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتا‘ اور راسخ العقیدہ اسلام جتنی مضبوط جڑیں یہاں رکھتا ہے کہیں اور نہیں رکھتا. (۱۹۶۸ء میں جو ایجی ٹیشن ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم کی کتاب ’’اسلام‘‘ کے خلاف ہوا تھا او رپھر ۱۹۷۴ء میں جو معجزہ قادیانی مسئلے کے حل کی صورت میں صادر ہوا وہ اس کے مُنہ بولتے ثبوت ہیں) حتیٰ کہ جزیرہ نمائے عرب بھی‘ جہاں اس صدی کے وسط تک محمد بن عبدالوہاب ؒ کی تجدیدی مساعی کے گہرے اثرات قائم رہے ہیں ‘اب اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے!
اس کی وجہ بھی بادنی ٰ تأ مل سمجھ میں آ جاتی ہے‘ اور وہ یہ کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ایسی جامع شخصیت گزشتہ تین سو سال کے دوران میں پورے عالم اسلام میں پیدا نہیں ہوئی ‘ اور انہوں نے مسلمانوں کی توجہ علم دین کے اصل سر چشموں یعنی قرآن اور حدیث کی جانب منعطف کرانے کے ساتھ ساتھ فکر اسلامی کی تدوین نو کا جو عظیم الشان کارنامہ انجام دیا اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں دین اور رجالِ دین کی ساکھ از سر نو مضبوط ہوگئی. اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ علماء دین کی مساعی میں اصل زور دورِ حاضر میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور تجدید و احیائے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے دین کے نظامِ عقائد و اَعمال کی حفاظت و مدافعت پر ہے. اس طرح ان کی خدمات کو سابق مجددین اسلام کی مساعی کے ساتھ ایک نوع کے تسلسل کی نسبت حاصل ہے‘ اس لیے کہ جملہ مجددین اُمت کی مساعی کی اصل نوعیت بھی احیاءِ دین یا اقامت دین کی نہیں بلکہ حفاظت و مدافعت دین ہی کی تھی‘ اور یہ اس لیے کہ ابھی اسلام کا قصرِعظیم بالکل زمین بوس نہیں ہوا تھا ‘اور خواہ دین کی حقیقی روح کتنی ہی مضمحل اور پژمردہ ہو چکی ہو‘ بہرحال اسلام نے جو تہذیبی اور قانونی نظام دنیا میں قائم کیا تھا اس کا ڈھانچہ برقرار تھا‘ حتیٰ کہ شریعت اسلامی اکثر مسلمان ممالک میں بالفعل نافذ تھی. چنانچہ تمام تجدیدی مساعی کا اصل ہدف یہ رہا کہ دین کا نظامِ عقائد و اَعمال محفوظ اور اپنی اصل صورت میں قائم رہے اور خارجی و بیرونی اثرات دین کو مسخ نہ کر دیں.
یہی وجہ ہے کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دور تک کے تمام مجدّدین اُمت علیہم الرحمۃ کی مساعی اکثر و بیشتر علم و فکر کے میدان ہی تک محدود رہیں اور عقائد و نظریات کی تصحیح و اصلاح ہی کو اُن کے اصل ہدف کی حیثیت حاصل رہی‘ اور اس سے آگے اگر قدم بڑھا بھی تو زیادہ سے زیادہ اصلاحِ اخلاق و اعمال‘ تزکیۂ نفس اور تربیتِ روحانی تک. اس سے آگے بڑھ کر گزشتہ صدی سے قبل کسی بھی مجدّدِ دین کی جدوجہد نے سیاسی یا عسکری تحریک کی صورت اختیار نہیں کی.
اس کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف ’’خروج‘‘ یعنی مسلح بغاوت پر نہایت سخت بندشیں عائد فرما دی تھیں ‘اور جب تک ان کے ہاتھوں شریعت ِ اسلامی کا نفاذ ہو رہا تھا او رکسی ’’کفر بواح‘‘ یعنی کھلے اور صریح کفر کی ترویج و تنفیذ نہیں ہو رہی تھی ان کے ذاتی فسق و فجور اور ظلم و جور کے باوجود ان کے خلاف مسلح بغاوت ممکن نہ تھی یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی یہ صورت حال تبدیل ہوئی اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر غیر مسلم اقوام کے ہاتھوں میں آئی‘ دفعۃً ان مساعی میں عسکریت بھی پیدا ہو گئی‘ جس کی سب سے شاندار اور تابناک مثال خانوادۂ ولی اللّٰہی کے زیر اثر برپا ہونے والی تحریک شہیدین رحمہما اللہ ہے. عالم عرب میں اس کی متوازی تحریکوں کے طور پر مہدی سوڈانی ؒ اور شیخ سنوسی ؒ کی مساعی کو شمار کیا جا سکتاہے. البتہ یہ حقیقت پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ عہد حاضر میں ‘بالخصوص برعظیم پاک و ہند میں‘ علماء کرام کی خدمات دو اعتبارات سے اصلاح طلب بھی ہیں. مثلاً ایک یہ کہ جب سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوا اور تقلید جامد کا دَور دَورہ ہوا اور تشتّت و انتشار اور فرقہ پرستی و گروہ بندی نے پاؤ ں جما لیے ‘ ہر فرقے کے علماء کرام دین کے نظامِ عقائد و اعمال کی خاص اسی صورت کی حفاظت و مدافعت پر سارا زور صرف کر رہے ہیں جو اُن کے مخصوص فرقے یا گروہ کے نزدیک معتبر و مستند ہے‘ جس سے فرقہ بندی کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہیں. دوسرے چونکہ انہوں نے علومِ جدیدہ اور دورِ حاضر کے افکار و نظریات کا مطالعہ اس طرح براہِ راست اور بالاستیعاب نہیں کیا جس طرح اپنے اپنے دَور میں امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہ ؒ نے کیا تھا‘ لہذا وہ دورِ حاضر میں حفاظت و مدافعت دین کے اصل تقاضوں کو بھی صحیح طور پر پورا کرنے سے قاصر ہیں. گویا دورِ حاضر میں علماء دین کی حیثیت دین کے جہاز کو آگے بڑھانے والی قوت فراہم کرنے والے انجن کی تو نہیں ہے‘ البتہ کم‘از کم برعظیم پاک و ہند کی حد تک ایک ایسے بھاری لنگر کی ضرور ہے جو اس کشتی کو غلط رخ پر بڑھنے سے روکنے کی خدمت بہرحال سر انجام دے سکتا ہے‘ اور فی زمانہ یہ بھی ایک اہم خدمت ہے.
برعظیم میں اس سلسلے میں ایک اہم مقام اور مرتبہ دیو بندی مکتب فکر کو حاصل ہے جو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ’’فکر‘‘ کا نہ سہی’’علم‘‘ کا وارث ضرور ہے‘ اور جس کی کوکھ سے دینی مدرسوں اور دارالعلوموں کے ایک عظیم سلسلے کے علاوہ ایک عظیم تحریک بھی برآمد ہوئی ہے جس نے راسخ العقیدہ اسلام کی جڑوں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ توجہات کو حقائق ایمانی پر مرکوز کر دیا‘ اور جس کے زیر اثر کم از کم ایسے لوگ ضرور دین سے قریب ہو رہے ہیں جن کے اذہان فکری و نظری اشکالات سے خالی ہوتے ہیں اور جن کے قلوب میں نیکی کا ایک جذبہ ‘خواہ نیم خوابیدہ حالت ہی میں سہی ‘بہرحال موجود ضرور ہوتا ہے. ہماری مراد ’’جماعت تبلیغی‘‘ سے ہے جس نے اس دَور میں دین و مذہب کے نام پر ایک عظیم حرکت عالم اسلام ہی نہیں‘ دیارِ غیر میں بھی برپا کر دی ہے‘ اور جس کے زیر اثر عوامی سطح ہی پر سہی بہرحال ’’تجدید ایمان‘‘ کی ایک تحریک بالفعل برپا ہو گئی ہے‘ اور جسے بلا شبہ زیر بحث ہمہ جہتی احیائی عمل میں ایک اہم مقام حاصل ہے. حال ہی میں بعض دوسرے مذہبی حلقوں نے بھی اسی طرز پر کام کا آغاز کر دیا ہے. اللہ کرے کہ اس سے فرقہ واریت کو فروغ نہ ہو بلکہ ایمان کی باطنی کیفیات اور شعائر اسلامی کی پابندی کو تقویت حاصل ہو.
اس ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘ کا تیسرا اور اہم ترین گوشہ وہ ہے جس میں وہ جماعتیں اور تنظیمیں برسرکار ہیں جو قائم ہی خالص احیائی مقاصد کے تحت ہوئیں اور جنہیں اب اس احیائی عمل کے اعتبار سے گویا مقدمۃ الجیش کی حیثیت حاصل ہے. مختلف مسلمان ممالک میں ایسی جماعتیں اور تنظیمیں مختلف ناموں کے تحت کام کرتی رہی ہیں‘ لیکن ؎ ’’ہے ایک ہی جذبہ ‘کہیں واضح کہیں مبہم‘‘ اور ’’ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدھم!‘‘ (جناب نعیم صدیقی) کے مصداق ان کی حیثیت ایک ہی تحریک کے تحت کام کرنے والی مختلف تنظیمی ہیئتوں کی ہے.
ان جماعتوں میں اگرچہ ایک دَور میں جوش اور جذبے کی شدت اور اثر ونفوذ کی وسعت کے اعتبار سے مصر کی الاخوان المسلمون توجہات اور امیدوں کا مرکز بن گئی تھی‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ احیائی عمل کے اس گوشے میں بھی اصل اہمیت برعظیم پاک و ہند ہی کوحاصل ہے.
برعظیم میں اس تحریک احیائے دین کے مؤسس اوّلین اور داعی ٔ اوّل کی حیثیت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کو حاصل ہے‘ جنہوں نے اس صدی کے بالکل اوائل میں ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے ’’حکومت ِالٰہیہ‘‘ کے قیام اور اس کے لیے ایک ’’حزب اللہ‘‘ کی تأسیس کی پُرزور دعوت پیش کی. مولانا کے مخصوص طرزِ نگارش اور اندازِ خطابت نے‘ خصوصاً تحریک خلافت کے دوران میں‘ اُن کی شہرت کو برعظیم کے طول و عرض میں پھیلایا اور ان کی دعوت نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر لیا‘ لیکن اس کے بعد بعض وجوہ کی بنا پر‘ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے‘ انہوں نے دفعتہ اس عظیم مشن کو خیر باد کہہ کر انڈین نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار کر لی اور باقی پوری زندگی پوری یکسوئی اور کمال مستقل مزاجی کے ساتھ ہندوستان کی نیشنلسٹ سیاست کی نذر کر دی. (راقم نے اس موضوع پر مفصل بحث اپنی تالیف ’’جماعت شیخ الہند ؒ ‘‘میں کی ہے).
اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم تو میدان چھوڑ گئے‘ لیکن ان کی زور دار دعوت کی گھن گرج سے مسلم انڈیاکی فضائیں دیر تک گونجتی رہیں‘ اور پھر کم و بیش دس ہی سال بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے مولانا آزاد کو اُن کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے کر ان کے ترک کردہ مشن کو اختیار کرنے کے عزمِ مصمم کے ساتھ ان کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ ہی کے ہم نام ماہنامے کی ادارت سنبھالی اور اس کے ذریعے اسی ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے قیام کا نصب العین اور ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کی سعی کا ایک نقشہ مسلمانانِ ہند کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا ‘اور پہلے چھ سات برس تک پورے صبر و استقلال کے ساتھ خالص انفرادی طور پر کام جاری رکھا‘ پھر کچھ عرصہ ’’دارالاسلام‘‘ کے نام سے جو ادارہ علامہ اقبال کے ایک عقیدت مندچوہدری نیاز علی خاں نے قائم کیا تھا اس کے تحت کام کیا‘ اور بالآخر ۱۹۴۱ء میں ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھ دی اور ایک منظم جدوجہد کا آغاز کردیا.
سب جانتے ہیں کہ کئی صدیوں سے عالم اسلام میں علمی و ثقافتی مراکز دو ہی رہے ہیں‘ عالم عرب میں مصر اور غیر عرب مسلم دنیا میں ہندوستان. چنانچہ بیسویں صدی عیسوی کی احیائی تحریکیں بھی ان ہی دو ملکوں سے اُٹھیں. لیکن تقریباً نصف صدی کے عرصے میں مصر کی تحریک اسلامی کے اثرات تمام عرب ممالک تک پہنچ گئے جن میں کم و بیش بیس پچیس کروڑ مسلمان آباد ہیں. اور ہندوستان تو تھا ہی ایک برعظیم جس کے چار ٹکڑوں میں (اس لیے کہ اب کشمیر بھی بالقوہ تو بھارت سے جدا ہو ہی چکا ہے) لگ بھگ چالیس کروڑ مسلمان آباد ہیں‘ جن کی نوجوان نسل کا معتدبہ حصہ تحریک اسلامی کے زیر اثر آیا ہے. ایران کا معاملہ خود اپنی جگہ ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہے. اس صدی کے آغاز تک وہ باقی مسلم دنیا سے الگ تھلگ گویا اپنے ہی خول میں بند تھا. پھر دوسرے ممالک کی احیائی تحریکوں کی فہرست میں ایران کے ’’فدائین‘‘ کا بھی ذکر سنائی دیا‘ لیکن اس کے بعد پھر کچھ خاموشی سی طاری رہی‘ تاآنکہ اچانک ایک طوفان کی سی کیفیت کے ساتھ ایران میں انقلاب آیا اور وہ بعض اعتبارات سے تو پوری مسلم دنیا سے آگے نکل گیا.
مزید برآں ان تمام مسلمان ممالک سے جو نوجوان ساٹھ کی دہائی میں حصولِ تعلیم کے لیے امریکہ‘ انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک گئے اور پھر وہیں آباد ہو گئے ان کے ذریعے ان تحریکوں کے اثرات مغربی دنیا میں بھی قابل لحاظ و احساس حد تک پہنچ چکے ہیں‘ چنانچہ مغرب ان ہی کو ’’مسلم فنڈامنٹلسٹ ‘‘ کے نام سے پکار رہا ہے اور ان سے اپنی ’’مثالی‘‘ تہذیب و تمدن کو خطرہ محسوس کر رہا ہے. (فرعون نے بھی سورۂ طٰہٰ کی آیت ۶۳ کی رو سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو اپنی ’’مثالی‘‘ تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیا تھا) اور اس امر سے قطع نظر کہ ان تحریکوں کی نصف صدی سے زائد کی مساعی کا حاصل کیا ہے اور پالیسی اور طریق کار کے بارے میں اختلافات کے سبب سے یہ کتنی شاخوں میں تقسیم ہوئی ہیں‘ جیسے مثلاً عالم عرب میں مصر اور اردن میں بحیثیت مجموعی تو اِخوان نے پُرامن میانہ روی اختیار کی اور سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کو اپنی پیش رفت کا ذریعہ بنایا‘ لیکن ان ہی سے علیحدگی اختیار کرنے والے زیادہ ریڈیکل عناصر نے تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیا‘ جیسے مصر کی کچھ عرصہ قبل کی ’’التکفیر والہجرۃ‘‘ اور حالیہ ’’جماعۃ اسلامیۃ‘‘ . (اکتوبر ۱۹۷۹ء میں راقم نے قاہرہ میں اخوان کے مرشد عام عمر تلمسانی مرحوم سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ’’التکفیر والہجرۃ‘‘ اخوان ہی کے لوگ ہیں جو ہم سے علیحدہ ہو کر دہشت گردی کے راستے پر چل نکلے ہیں.) اسی طرح اردن ہی کے تقی الدین نبہانی مرحوم نے کہیں زیادہ ریڈیکل ’’حزب التحریر‘‘ کی بنیاد رکھی. بہرحال یہ امر مسلّم ہے کہ یہ تحریکیں مجموعی اعتبار سے عالم اسلام میں احیاءِ اسلام کی امنگ کا مظہر ہیں اور اب عالمی سطح پر انہیں ایک امر واقعی کی حیثیت سے تسلیم کیا جا رہا ہے. الغرض‘ بیسویں صدی عیسوی میں ایک جانب تو سابقہ اور معزول شدہ اُمت مسلمہ یعنی یہود اور موجودہ اُمت مسلمہ یعنی مسلمانوں پر عذابِ الٰہی کے کوڑے بھی برستے رہے‘ لیکن دوسری جانب یہود کی بھی دو ہزار سالہ باسی کڑھی میں اُبال آیا اور وہ صیہونی تحریک کی زیر قیادت ’’ارضِ موعود‘‘ میں قدم جما کر عظیم تر اسرائیل کے قیام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی جانب پیش قدمی کے لیے پرتول رہے ہیں‘ اور خود مسلمان بھی مغربی استعمار کی کم از کم براہِ راست غلامی سے نجات پا کر (اس لیے کہ ابھی ریموٹ کنٹرول غلامی بتمام و کمال موجود ہے) اپنے دین کے احیاء اور اسلامی نظامِ حیات کے بہمہ وجوہ قیام ہی نہیں‘ عالمی غلبہ ٔ دین کے خواب دیکھ رہے ہیں ‘اور اس صدی کی آخری دہائی کے بقیہ حصے میں جو عظیم واقعات و حوادث رونما ہونے والے ہیں ان کی تہہ میں اصلاً ان ہی دو اُمتوں کی آخری آویزش کار فرما ہوگی‘ اگرچہ اس میں بظاہر زیادہ اہم اور نمایاں کردار ایک تیسری اُمت ادا کرے گی جو ابراہیمی ؑ مذاہب کے ’’ثالثُ ثلاثہ‘‘ یعنی تین میں کے تیسرے کی حیثیت رکھتی ہے. لہذا اس سے قبل کہ مستقبل کے واقعات و حوادث کے بارے میں کچھ بات کی جائے‘ کسی قدر گفتگو اس تیسری اُمت کے بارے میں ضروری ہے.
۵؍مئی ۱۹۹۳ء