ابراہیمی مذاہب کا’’ثالثِ ثلاثہ‘‘
’’ثالثُ ثلاثہ‘‘ کے الفاظ قرآن حکیم میں سورۃ المائدۃ کی آیت ۷۳ میں عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں‘ یعنی لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃ ’’یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے!‘‘ ’’ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ‘‘ (’’تین میں کا تیسرا‘‘) کے ان الفاظ میں ایک طنز اور تعریض مضمر ہے‘ جس کے فہم کے لیے اس حقیقت کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اگرچہ تمام مشرکانہ مذاہب کے عقائد میں یہ قدرِ مشترک لازماً موجود ہوتی ہے کہ اوپر ایک بڑے خدا کو مان کر اس کے نیچے بہت سے چھوٹے خدائوں کو تسلیم کیا جاتا ہے‘ لیکن پھر اصل خدائی چھوٹے خدائوں ہی کی ہوتی ہے‘ بڑا خدا تو بس ایک ’’دستوری سربراہ‘‘ بن کر رہ جاتا ہے (جیسے ٹھیٹھ پارلیمانی نظام میں صدرِریاست!) چنانچہ ہندوؤں کے نزدیک ’’مہادیو‘‘ تو ایک ہی ہے جب کہ دیویاں اور دیوتا بے شمار ہیں. اسی طرح یونانی اور رومی میتھالوجی میں ’’G‘‘ سے لکھا جانے والا ’’God‘‘ تو ایک ہی ہوتا تھا‘ لیکن ’’g‘‘ سے لکھے جانے والے gods اور godesses اَن گنت تھے. اسی طرح اہل عرب اللہ کو تو واحد بھی مانتے تھے اور بلا شرکت غیرے کل کائنات کا خالق اور مالک بھی تسلیم کرتے تھے‘ لیکن ان کے نزدیک اس کے تحت ’’اِلٰہ‘‘ بہت سے تھے جن کو اللہ نے جملہ اختیارات تفویض کر دیے تھے. لیکن‘ جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا‘ پھر اصل پوجا پاٹ ‘ چڑھاوے اور نذرانے چھوٹی دیویوں اور دیوتاؤں اور گاڈز اور گاڈیسز اور ہبل یا لات و منات اور عزیٰ ہی کے لیے ہوتے تھے‘ بڑا خدا تو بس ’’تین میں کا تیسرا‘‘بن کر رہ جاتا تھا. کچھ ایسا ہی معاملہ ابراہیمی مذاہب (علیٰ صاحبہاالصلوٰۃوالسلام) کے ضمن میں عیسائیت کا ہے کہ وہ تعدادِ نفوس کے اعتبار سے تو ابراہیمی مذاہب میں سب سے بڑا مذہب ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمی ؑمذاہب کی جانب اس کی نسبت صرف حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام یا زیادہ سے زیادہ ان کی ذات اور شخصیت کی حد تک محدود ہے‘ ورنہ عقائد و نظریات کے اعتبار سے موجودہ عیسائیت ایک بالکل جدا مذہب ہے جس کا شمار ’’فلسفیانہ مذاہب‘‘ میں ہونا چاہیے نہ کہ ’’ آسمانی مذاہب‘‘ میں‘ اور جس کی اصل نسبت سینٹ پال کی جانب ہونی چاہیے نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جانب.
بہرحال ہم جس موضوع پر سلسلہ وار کلام کر رہے ہیں اس کے اعتبار سے اس مذہب کے نام لیواؤں کا اہم ترین رول یہ ہے کہ دونوں اصل ابراہیمی ؑ اُمتوں پر عذابِ الٰہی کے دوسرے دَور میں سزا کے کوڑے بالفعل ان ہی کے ہاتھوں پڑتے رہے ہیں. چنانچہ سابقہ ابراہیمی ؑ اُمت یعنی یہود پر چوتھی صدی عیسوی کے اوائل سے لے کر‘ جب سلطنت روما نے عیسائیت اختیار کی تھی‘ بیسویں صدی عیسوی کے تقریباً وسط تک‘ گویا سولہ سو برس سے زائد عرصے تک‘ تشدّد و تعذیب‘ قتل و غارت‘ جلا وطنی اور ملک بدری کا سلسلہ مختلف عیسائی اقوام ہی کے ہاتھوں جاری رہا. (حالات و واقعات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس پورے عرصے کے دوران میں یہودیوں کو اگر کوئی سہولت یا سہارا حاصل ہوا تو صرف ان مسلمانوں کی جانب سے جن کے وہ بدترین دشمن ہیں. چنانچہ انہیں کئی سو برس بعد یروشلم میں داخلے کی اجازت ملی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کے ذریعے‘ پھر مکابی سلطنت کے زوال کے بعد یعنی لگ بھگ آٹھ سو برس بعد اگر انہیں کہیں امن و سکون اور چین کا سانس لینا نصیب ہوا تھا تو بنو عباس کے عہد خلافت میں‘ اور مسلم سپین کو تو اِن کے زعماء اور دانشور برملا طور پر اپنے دورِ جلا وطنی یعنی ’’Diaspora‘‘ کا ’’عہد زریں‘‘ قرار دیتے ہیں.) اسی طرح موجودہ ابراہیمی اُمت یعنی اُمت مسلمہ پر بھی گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے مسلسل عذابِ الٰہی کے کوڑے عیسائیوں کے ہاتھوں پڑ رہے ہیں. چنانچہ اوّلاً گیارہویں اور بارہویں صدی کے دوران صلیبیوں نے شام‘ فلسطین اور مصر کے ساحلی علاقوں کو تاخت و تاراج کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا‘ چنانچہ۱۰۹۹ء میں بیت المقدس میں مسلمانوں کا قتل عام تو تاریخ انسانی کے بدترین واقعات میں شمار ہوتا ہے. پھر تیرہویں‘ چودہویں اور پندرہویں صدی کے دوران عیسائیوں نے تدریجاً ہسپانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کو ختم کیا‘ تاآنکہ سولہویں صدی کے اوائل میں پورے جزیرہ نمائے آئی بیریا سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور یورپ کے جنوب مغربی علاقے سے ’’نسلی صفائی‘‘ (Ethnic Cleansing) کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا (جو اَب پانچ سو برس بعد یورپ کے جنوب مشرقی کنارے یعنی بلقان کے علاقے میں ہو رہا ہے.) بعد ازاں یورپ کی عیسائی اقوام کا سیلاب واسکوڈی گاما کے دریافت کردہ بحری راستے کے ذریعے مشرقِ اقصیٰ کے مسلمان ممالک پر ٹوٹ پڑا‘اور سترہویں‘اٹھارہویں اورانیسویں صدی کے دوران جاوا‘ملایا‘سماٹرا اور ہندوستان سے مسلمان حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے بالآخر یہ سیلاب بیسویں صدی کے اوائل میں عظیم سلطنت عثمانیہ کو بھی بہا کر لے گیا اور پورا شرقِ اوسط اور شمالی افریقہ بھی عیسائی اقوام کے زیر نگیں آگیا. بقول علامہ اقبال: ؎
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز!
الغرض‘ یہودیوں کے لیے سولہ سو برس تک اور مسلمانوں کے لیے ایک ہزار برس سے عیسائیوں نے عذاب کے کوڑے کا کردار ادا کیا ہے اور‘ جیسے کہ سطورِ گزشتہ میں واضح کر دیا گیا تھا‘ اگرچہ بیسویں صدی عیسوی کے دوران یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین تعلقات کی نوعیت میں تو ایک انقلاب ِ عظیم رونما ہو چکا ہے‘ جس کے نتیجے میں اب مسیحی دنیا بالخصوص ’’واسپ‘‘ (WASP) یعنی "White Anglo Saxon Protestants" یہودیوں کے بظاہر معاون و محافظ اور مددگار و سرپرست‘ اور بباطن ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘کے مطابق زیرنگیں اور حاشیہ بردار بن چکے ہیں. لیکن مسلمانوں کے معاملے میں ان کا سابقہ کردار پوری طرح برقرار ہے اور ’’ ترسم کہ دِگر خیزد‘‘ کے مصداق اندیشہ ہے کہ عنقریب مغرب کی عیسائی اقوام کی ایک عظیم یلغار حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ (الانبیاء:۹۶) کی سی شان کے ساتھ عالم اسلام بالخصوص شرق اوسط پر ہونے والی ہے‘ جس کی صریح پیشین گوئیاں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں موجود ہیں ‘اور جس کی ایک ادنی ٰ جھلک دنیا نے خلیج کی جنگ کے دوران دیکھ بھی لی ہے. اور جس کے آئندہ بھیانک تر مرحلے کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’’مسلم فنڈامنٹلزم‘‘ کا ہو ّا کھڑا کیا جا رہا ہے‘ جس کے ضمن میں حال ہی میں شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ(یوسف:۲۶) کے مصداق امریکی پروفیسر ڈاکٹر ایکپسوزیٹو نے اپنی حالیہ تالیف میں یہ ’’سچی بات‘‘ غالباً کسی ’’مستی‘‘ کے عالم میں کہہ دی ہے کہ ’’مغرب یا عالم عیسائیت کو اسلام کی جانب سے کسی خطرے یا اندیشے کا واویلا بالکل بے جا اور غیر واقعی ہے‘ اس لیے کہ تاریخ شاہد ہے کہ آج تک عیسائی دنیا کو کبھی کوئی گزند اسلام کی جانب سے نہیں پہنچا‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اس کے برعکس ہمیشہ عالمِ اسلام ہی کو عیسائی دنیا کی جانب سے نقصان پہنچتا رہا ہے.‘‘
لیکن اس سے قبل کہ ہم ’’ آنے والے دور کی ‘‘ صرف ’’دھندلی سی اِک تصویر‘‘ نہیں بلکہ وہ واضح تصویر دیکھیں جو احادیث میں موجود ہے‘ آیئے کہ پہلے موجودہ دنیا میں مذاہب کے اعتبار سے ’’انسانی جغرافیہ‘‘ پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں اور پھر ابراہیمی ؑمذاہب خصوصاً عیسائیت کا ایک مختصر سا جائزہ لے لیں.
اِس وقت دنیا کی کل انسانی آبادی ساڑھے پانچ یا پونے چھ ارب کے لگ بھگ ہے. (ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۰۰ء میں یہ آبادی چھ ارب تیس کروڑ ہو جائے گی) ٭ اس میں سے نصف سے زائد آبادی تین ابراہیمی ؑمذاہب کی پیروکار ہے. چنانچہ شکاگو کی عیسائیوں اور یہودیوں کی مشترکہ ’’نیشنل کانفرنس‘‘ نے ۱۹۹۰ء میں جو ’’انٹر فیتھ کیلنڈر‘‘ شائع کیا تھا اس کے مطابق اب سے تین سال قبل دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم‘ مسلمانوں کی ایک ارب سے زائد اور عیسائیوں کی پونے دو ارب کے لگ بھگ ٭ واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۹۳ء کی ہے. اس وقت دنیا کی آبادی چھ ارب ستر کروڑ ہو چکی ہے. (۲۰۰۸ء) (ا ینگلی کن چرچ سات کروڑ‘ کیتھولک نوے کروڑ‘ آرتھوڈو کس تیرہ کروڑ اور پروٹسٹنٹ تریسٹھ کروڑ) تھی. اس میں اگر ا ن دو عوامل کا اضافہ کر لیا جائے کہ اوّلاً یہودیوں اور عیسائیوں میں تو آبادی کا اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے بارے میں مسلّم ہے کہ ان کی آبادی میں شرحِ اضافہ بہت زیادہ ہوتا ہے‘ اور ثانیاً مسلم اقلیت والے ممالک (بالخصوص بھارت) میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم دکھائی جاتی ہے‘ تو محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت دنیا میں ایک ارب تیس کروڑ (بعض لوگوں کے خیال میں پونے دو ارب) مسلمان موجود ہیں (واللہ اعلم). مذکورہ بالا کیلنڈر کے مطابق ۱۹۹۰ء میں دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں سب سے بڑی تعداد ہندوئوں کی تھی ‘یعنی پینسٹھ کروڑ سے زائد‘ پھر بدھ مت کے پیرو کار تھے‘ یعنی پچیس کروڑ کے لگ بھگ‘ پھر سکھ تھے ‘یعنی تقریباً پونے دو کروڑ‘ اور باقی صرف لاکھوں میں. ان میں بھی تین سال کے عرصے کے دوران کا اضافہ شامل کر لیا جائے اور پھر اس میں ایک ارب کے قریب لا مذہب یا نیچر وَرشپ والے لوگوں کو جمع کر لیا جائے تو کل حاصل جمع وہی بن جاتا ہے جو اوپر دیا گیا.
قرآن حکیم پر ایمان اور قرآن کے فلسفۂ تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایں دم تک دین برحق اسلام ہی رہا ہے‘ اور دنیا کے باقی جملہ مذاہب آسمانی ہدایت اور انبیاء اور رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی کی محرف اور تبدیل شدہ صورتیں ہیں‘ لیکن ان میں سے اکثر کی صورتیں اتنی بدل چکی ہیں کہ اب بقولِ جگر مراد آبادی ؏ ’’ کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!‘‘ البتہ صرف دو مذہب وہ ہیں جن کا اصل ’’اسلام‘‘ کے ساتھ تعلق اور تسلسل کم از کم تاریخی اعتبار سے ثابت ہے ‘یعنی یہودیت اور نصرانیت. اور جیسے کہ اس سے قبل تفصیل سے واضح کیا جا چکا ہے ‘ ان میں سے بھی اصل مسلمان اُمتیں دو ہی ہیں‘ یعنی سابقہ اُمت مسلمہ بنی اسرائیل اور موجودہ اُمت مسلمہ یا مسلمان. اور آئندہ اصل اور فیصلہ کن معرکہ تو ان ہی کے مابین ہوگا‘ لیکن مستقبل قریب میں ابتداءً ‘نمایاں کردار ادا کریں گے ابراہیمی ؑ مذاہب کے ’’تین میں کے تیسرے‘‘ مذہب کے پیروکار یعنی عیسائی. لہذا ان کے بارے میں قرآنی نقطۂ نظر کی کسی قدر وضاحت ضروری ہے.
موجودہ عیسائی مذہب اگرچہ ان چار بڑے بڑے فرقوں میں منقسم ہے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے (بلکہ ان کی مزید تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق اس وقت بائیس ہزار سے زائد ’’چرچ‘‘ وجود میں آ چکے ہیں)‘ تاہم ان سب کے مابین تثلیث‘ صلیب اور کفارہ کے عقائد متفق علیہ ہیں. قرآن حکیم تثلیث کی تو شدت کے ساتھ نفی کرتا ہی ہے‘ اس خیال کی بھی پرزور تردید کرتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سولی پر چڑھائے گئے جہاں ان کی موت واقع ہوئی‘ جس سے کَفّارے کا عقیدہ بھی خود بخود منہدم ہو جاتا ہے. الحمدللہ کہ اگرچہ صلیب کا واقعہ تو اناجیل اربعہ میں موجود ہے‘ لیکن تثلیث یا ابنیت مسیح ؑکے عقیدے کی کوئی بنیاد ان میں ہرگز موجود نہیں‘ اور ان کا اوّلین سراغ تو اگرچہ سینٹ پال کی تحریروں میں مل جاتا ہے‘ تاہم انہیں باضابطہ اور سرکاری طور پر طے شدہ عقائد کی حیثیت بہت بحث و تمحیص اور جدل و نزاع کے نتیجے میں حضرت مسیح علیہ السلام کے لگ بھگ تین سو برس بعد حاصل ہوئی ‘اور اس عرصے کے دوران موحدین اور تثلیث کے قائلین کے مابین شدید خون خرابہ بھی ہوا. جہاں تک حضرت مسیح ؑکی ذات اور شخصیت کا تعلق ہے ‘چند امور تو وہ ہیں جو ایک جانب قرآن حکیم اور احادیث ِ نبویہؐ اور دوسری جانب اناجیل اربعہ کے مابین مشترک ہیں‘ لہذا مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین متفق علیہ عقائد کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جب کہ بعض امور ایسے ہیں جن میں قرآن اور اناجیل تو متفق ہیں‘ لیکن سینٹ پال کی ترامیم کے باعث عیسائیت ان کی قائل نہیں‘ اور بعض امور ایسے بھی ہیں جوقرآن اور اناجیل کے مابین بھی مختلف فیہ ہیں. چنانچہ متفق علیہ امور تو یہ ہیں کہ:
۱) حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی پیدائش معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوئی ‘لیکن چونکہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم صدیقہ رضی اللہ عنہااسرائیلی تھیں‘ لہذا حضرت مسیحؑ کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے ہے.
۲) ان کے دست مبارک سے ایسے عظیم معجزے صادر ہوئے جن کی نہ کوئی دوسری مثال موجود ہے نہ ہی ان سے بڑے حسی معجزوں کا تصور ممکن ہے. جیسے مردوں کو زندہ کر دینا‘ گارے سے پرندے کی صورت بنانا اور پھر اس میں پھونک مار کر اسے زندہ اور اُڑتا ہوا پرندہ بنا دینا ‘وغیرہ. (واضح رہے کہ قرآن حکیم معنوی اور ابدی معجزہ ہونے کے اعتبار سے ان جملہ معجزات سے افضل ہے‘ لیکن اس کا اعجاز صرف دل کی آنکھ اور عقل کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے‘ سر کی آنکھ سے نہیں!)
۳) انہوں نے یہودیوں میں توبہ کی زبردست منادی کی اور انہیں اخلاقی اور روحانی اصلاح کی زور دار دعوت دی‘ اور اس ضمن میں ان کے علماء‘ مفتیوں‘ قاضیوں اور ان کی ریاکارانہ مذہبیت پر شدید تنقیدیں کیں‘ چنانچہ مذہب کے یہ اجارہ دار طبقات آنجناب ؑ کے شدید دشمن اور جان کے درپے ہوگئے.
۴) ان کی زور دار دعوت کا شور اور غلغلہ تو بہت بلند ہوا‘ اور یروشلم اور آس پاس کے علاقے کے یہودی عوام اس سے متأثر بھی بہت ہوئے ‘ لیکن ان پر ایمان بہت ہی کم لوگ لائے اور ان میں سے بھی صرف چند حواری ایسے تھے جو ان کے دن رات کے ساتھی اور دل و جان سے فدائی تھے. (اناجیل کی رُو سے ان کی تعداد بارہ تھی‘ اگرچہ مختلف اناجیل میں ناموں کا اختلاف ہے.)
ـ ۵) بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اُٹھا لیا اور قیامت کے قریب وہ دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے.
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل اور نہایت توجہ کے قابل ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا نصف سے زائد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ کے بارے میں ان پانچ امور پر متفق ہے‘ جن میں سے بعض باتیں نہایت غیر معمولی اور خالص خرقِ عادت یعنی دنیا کے عام طبعی قوانین کے بالکل برعکس ہیں!
اب آیئے ان دو نہایت اہم اور اساسی امور کی جانب جن پر قرآن و حدیث اور اناجیل اربعہ تو متفق ہیں ‘ لیکن سینٹ پال کی اختیار کردہ ترمیمی آراء اور اقدامات کی بنا پر موجودہ عیسائیت کا موقف اور طرزِ عمل ان سے مختلف ہی نہیں متضاد ہے. وہ دو امور حسب ذیل ہیں:
۱) حضرت مسیح علیہ السلام نہ کوئی نئی شریعت لائے تھے‘ نہ ہی انہوں نے شریعت موسوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو منسوخ کیا‘ بلکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید و توثیق اور بنی اسرائیل کی اخلاقی وروحانی اصلاح اور دین کی حقیقی روح کے احیاء کے لیے مبعوث ہوئے تھے. گویا وہ اپنی ذات کی حد تک سابقہ اُمت مسلمہ ہی سے تعلق رکھتے تھے اور کسی نئے دین و مذہب یا ملت و اُمت کے بانی نہیں تھے. چنانچہ مشہورِ زمانہ تالیف "The 100" کے مؤلف ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ جب تک حضرت مسیحؑ دنیا میں موجود رہے‘ آپ ؑ اور آپؑ کے ساتھیوں کی حیثیت یہود ہی کی ایک جماعت یا زیادہ سے زیادہ فرقے کے علاوہ کچھ نہ تھی! گویا موجودہ مسیحیت کے اصل بانی حضرت مسیحؑ نہیں‘ سینٹ پال ہیں ‘جنہوں نے نہ صرف یہ کہ شریعت موسوی ؑکو عیسائیوں کے لیے منسوخ قرار دیا‘ بلکہ خود شریعت ہی کی کلی نفی کر دی اور اسے (معاذ اللہ) ’’لعنت‘‘ قرار دیا.
۲) حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی. چنانچہ آنجناب ؑ نے خود اپنی دعوت اور خطاب کو بھی صرف بنی اسرائیل تک محدود رکھا اور صاف فرمایا: ’’میں صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں!‘‘ اور اپنے شاگردوں کو بھی سختی کے ساتھ منع فرما دیا کہ اپنی دعوت و تبلیغ کے دائرے کو
بنی اسرائیل کے باہر وسعت نہ دیں. چنانچہ اس معاملے میں بھی ’’انقلابی قدم‘‘ سینٹ پال ہی نے اٹھایا. یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی عیسوی کی چالیس کی دہائی کے دوران اس معاملے میں حضرت مسیح ؑکے ماننے والوں کے محدود حلقے میں شدید بحث و نزاع کا بازار گرم رہا‘ لیکن بالآخر فتح سینٹ پال اور ان کے حامیوں ہی کو حاصل ہوئی. چنانچہ اس کے بعد عیسائیت کو اصل فروغ غیر اسرائیلی اقوام ہی میں ہوا‘ اور آج عیسائیوں میں نسلی طور پر بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تناسب آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی بہت کم ہے. آخر میں اس واحد اہم اور اساسی امر پر بھی نگاہ ڈال لیں جس کے معاملے میں ایک جانب قرآن و حدیث اور دوسری جانب اناجیل اربعہ میں واضح اختلاف بلکہ کھلا تضاد ہے یعنی یہ کہ اناجیل اربعہ کے مطابق یہودی علماء کے فتوے اور ان کی مذہبی عدالت کے فیصلے کے مطابق‘ بلکہ ان کے اصرار پر رومی حاکم پیلاطس پونٹس نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی پر چڑھاد یا جہاں ان کی موت واقع ہو گئی‘ اگرچہ بعد میں جب کہ ان کا جسد خاکی ایک غار میں رکھا ہوا تھا ‘وہ زندہ ہو گئے اور اپنے بعض شاگردوں کو اپنی واپسی اور دوبارہ دنیا میں آنے کی نوید سنا کر آسمان پر چلے گئے. جب کہ قرآن حکیم ان کے مصلوب یا قتل ہونے کی شدت سے نفی کرتا ہے ‘اور صحیح اور مستند ترین احادیث صراحت کرتی ہیں کہ آنجناب ؑ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور قیامت کے قریب دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے اور اس کے بعد ہی آپ ؑپر طبعی موت کا مرحلہ آئے گا. تاہم قرآن اور حدیث دونوں میں یہ تفصیل موجودہ نہیں ہے کہ آنجنابؑ کا رفع سماوی کب‘ کہاں اور کس مرحلے پر ہوا اور آپؑ کی جگہ کون مصلوب ہوا. البتہ یہ خلا بتمام و کمال انجیل برنباس کے ذریعے پُر ہو جاتا ہے‘ یعنی عین اُس وقت جب حضرت مسیحؑ کے ایک غدار حواری یہوداہ اسکریوتی کی مخبری پر رومی سپاہی آنجناب ؑکی گرفتاری کے لیے اس باغ میں داخل ہوئے جہاں آپ ؑ روپوش تھے‘ اللہ کے حکم سے چار فرشتے نازل ہوئے جو آنجنابؑ کو اٹھا کر لے گئے‘ اور اس غدار حواری کی صورت آپ ؑ کے مشابہ بنا دی گئی. چنانچہ وہی گرفتار ہوا اور بالآخر مصلوب ہو کر کیفر کردار کو پہنچ گیا.
(واضح رہے کہ عیسائی یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ سینٹ برنباس حضرت مسیح ؑکے اوّلین مبلغین میں سے تھے‘ یہاں تک کہ ابتدا میں خود سینٹ پال کی حیثیت ان کے نائب کی تھی‘ لیکن متذکرہ بالا انجیل کی نسبت ان کی جانب درست نہیں سمجھتے‘ بلکہ اسے جعلی اور فرضی قرار دیتے ہیں. اور چونکہ اس میں نبی اکرمﷺ کا ذکر آپ ؐ کے اسم گرامی کی صراحت کے ساتھ بکثرت موجود ہے لہذا عیسائی اسے کسی مسلمان کی تصنیف قرار دیتے ہیں. حالانکہ اس خیال کی تردید کے لیے صرف یہ ’’قرائن کی شہادت‘‘کفایت کرتی ہے کہ اگر واقعتا ایسا ہوتا تو اس انجیل کا تذکرہ مسلمانوں کے لٹریچر میں ہونا لازمی تھا‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اس کا حوالہ پورے مسلم لٹریچر میں کہیں موجود نہیں. چنانچہ قرآن مجید کی جملہ تفاسیر حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے وقت اور مقام کی تفاصیل اور اس سوال کے جواب سے خالی ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جگہ کون شخص مصلوب ہوا؟ اس لیے کہ قرآن حکیم حضرت مسیحؑ کے مصلوب ہونے کی تو شدت کے ساتھ نفی کرتا ہے‘ لیکن واقعۂ صلیب کی مطلق نفی نہیں کرتا.)
حاصل کلام یہ کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت اور تورات اور عہد نامۂ قدیم کی دیگر کتابوں کی بائبل میں شمولیت کی بنا پر عیسائیت ابتدا میں یقینا ابراہیمی ؑمذاہب ہی کے سلسلے کی کڑی تھی‘ لیکن چونکہ زیادہ سے زیادہ تین سو سال بعد اس کی کامل قلب ماہیت ہو گئی تھی‘ چنانچہ موجودہ عیسائیت اپنے عقائد یعنی تثلیث‘ صلیب اور کفارہ کے حوالے سے اور شریعت موسوی ؑ سے انقطاع کے باعث ایک بالکل علیحدہ مذہب کی صورت اختیار کر چکی ہے جو آسمانی مذاہب کے مقابلے میں فلسفیانہ مذاہب سے قریب تر ہے‘ لہذا اب اس کی بقیہ دونوں ابراہیمی مذاہب سے کوئی مناسبت باقی نہیں رہی. لیکن چونکہ ’’ آنے والے دَور‘‘ میں حضرت مسیحؑ کا نزول یا آپ ؑ کی آمد ثانی بجائے خود بھی نہایت اہم واقعہ ہو گا اور اس پر مستزاد اہم ترین عالمی تبدیلیوں کی تمہید بنے گا (اگرچہ آنجناب ؑ کے نزول یا آمد ثانی کامقصد اناجیل سے واضح نہیں ہوتا‘ بلکہ صرف نبی اکرمﷺ کی احادیث مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے اور وہ قرآن کے اس قانونِ عذاب کے عین مطابق ہے جس پر اس سے قبل گفتگو ہو چکی ہے‘ تاہم اس پر مفصل کلام بعد میں ہو گا) مزید برآں‘ چونکہ اس سے بھی پہلے ایک جھوٹا‘ مکار اور دجال شخص حضرت مسیحؑ ہی کے نام پر دنیا میں عظیم فساد برپا کرے گا‘ جس کی واضح پیشینگوئیاں احادیث نبویہ ؑ میں بھی موجود ہیں اور عہد نامہ جدید میں بھی‘ لہذا ضروری ہے کہ اناجیل اربعہ کے ساتھ تقابل سے قطع نظر‘ مثبت طورپر قرآن اور حدیث کے حوالے سے حضرت مسیحؑ کی شخصیت پر مزید روشنی ڈال دی جائے. (واضح رہے کہ متذکرہ بالا جھوٹے اور مکار شخص کو احادیث نبویہؐمیں ’’المسیح الدجال‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ اور عیسائی دنیا اسے "Anti-Christ" کے نام سے جانتی ہے. اور آج کل سولہویں صدی عیسوی کے ایک فرانسیسی نژاد‘ یہودی النسل عیسائی درویش ’’ناسٹرے ڈیمس‘‘کی پیشینگوئیوں پر مبنی ویڈیو کیسٹوں کے ذریعے اس کا بہت چرچا مغربی دنیا میں ہو رہا ہے‘ اور اگرچہ عیسائی دنیا کی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ قدیمی اور روایتی دشمنی کی بنا پر یہ پروپیگنڈ اشد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ یہ اینٹی کرائسٹ عرب مسلمانوں میں سے ہو گا ‘تاہم اس سے قطع نظر کہ وہ کس قوم سے ہو گا ‘یہ امر اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ یہ تصور بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے.)
بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں قرآن حکیم اور احادیث رسول ؑ کی بنیاد پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آنجناب ؑ اللہ کے محبوب بندے‘ برگزیدہ نبی اور جلیل القدر رسول تھے. بحیثیت نبی آپ ؑ سلسلۂ انبیاءِ بنی اسرائیل کی آخری کڑی تھے اور بحیثیت رسول آپ ؑ کی بعثت بھی بنی اسرائیل ہی کی جانب تھی. آپؑ کی بعثت کا مقصد دین موسوی ؑ ہی کی تجدید و توثیق اور اس میں پیدا کردہ تحریفات کا ازالہ اور یہودیوں کی اخلاقی اور روحانی اصلاح تھا. مزید برآں آپ ؑ ایک جانب ان پیشینگوئیوں کے مصدِّق و مصداق بن کر آئے تھے جو انبیاءِ بنی اسرائیل یہود کے ایک نجات دہندہ کے ظہور کے بارے میں کرتے آئے تھے‘ اور دوسری جانب آپ ؑ خاتم النبیین اور آخر المرسلین محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کے مبشر اور منادی کرنے والے بن کر آئے تھے (الصف:۶). آپ ؑکی ولادت چونکہ بن باپ کے ہوئی تھی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنی جانب سے ایک خاص روح اور اپنا ایک خصوصی کلمہ قرار دیا جو آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہما السلام کی جانب القاء کیا گیا‘ (النساء:۱۷۱). ولادت کے فوراً بعد آپ ؑ سے یہ عظیم معجزہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ ؑ نے پنگھوڑے میں سے بول کر اپنی والدہ ماجدہ کی پاکدامنی کی بھی گواہی دی اور اپنی نبوت و رسالت کا بھی اعلان کیا(مریم:۲۹ تا ۳۱).پھر جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ آپؑ کو عظیم ترین حسی معجزات عطا کیے گئے. گویا کہ بنی اسرائیل پر آپ ؑ کے ذریعے آخری درجہ میں اتمامِ حجت کر دیا گیا‘ لیکن اس سب کے باوجود یہود کی اکثریت بالخصوص ان کے علماء نے آپ ؑکی تصدیق نہیں کی‘ بلکہ آپؑ کی والدہ ماجدہ پر بدکاری کی تہمت لگا کر آپؑ کو (معاذ اللہ) ولدالزنا بھی قرار دیا اور جادوگر اور کافر ومرتد قرار دے کر واجب القتل بھی ٹھہرایا‘ اور اپنے بس پڑتے تو آپؑ کو سولی پر چڑھوا کر ہی دم لیا. یہ دوسری بات ہے کہ ’’وہ نہ آپؑ کو قتل کر سکے نہ صلیب دے سکے‘ بلکہ اللہ نے آپؑ کا معاملہ ان کے لیے مشتبہ بنا دیا… اور انہوں نے آپؑ کو ہر گز قتل نہیں کیا‘ بلکہ اللہ نے آپؑ کو اپنی جانب اٹھا لیا!‘‘(النساء:۱۵۷‘۱۵۸) مزید برآں‘ قرآن نے بھی آپؑ کو ’’عِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ‘‘ (الزخرف:۶۱) ’’قیامت کی ایک نشانی‘‘ قرار دیا ہے‘ اور احادیث نبویہ ؑ میں تو یہ بات تواتر اور غایت درجہ صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ آپ ؑ قیامت سے قبل نازل ہوں گے اور جھوٹے اور فریبی مسیح یعنی ’’المسیح الدجال‘‘ کو بنفسِ نفیس خود قتل کریں گے.
’’آنے والے دَور‘‘کی ایک دھندلی نہیں واضح تصویر پر نظر ڈالنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے کو بھی تاریخی حقائق کے پس منظر میں سمجھ لیا جائے کہ یہ انقلابِ عظیم کیسے رونما ہوا کہ وہ یہودی جو ایک ہزار برس تک عیسائیوں کے نزدیک ارذِل خلائق اور مبغوض ترین لوگ رہے اور ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے رہے ‘رفتہ رفتہ اس پوزیشن میں آ گئے کہ اس صدی کے اوائل میں نابغۂ عصر اور ’’برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز‘‘ علامہ اقبال نے اپنے انگلستان اور جرمنی کے مختصر سے قیام کے دوران وہ حقیقت بچشمِ دِل دیکھ لی تھی جو آج پوری دنیا بچشم سر دیکھ رہی ہے‘ یعنی ؏’’فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔیہود میں ہے!‘‘
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں واضح کیا ہے کہ ’’ہم نے ان کے (یعنی یہود اور نصاریٰ کے) مابین قیامت کے دن تک کے لیے بغض اور عداوت پیدا کر دی ہے !‘‘ (المائدۃ:۱۴و۶۴) قرآن حکیم پر یقین رکھنے والا ہر سنجیدہ طالب علم اس سے یہ دو نتائج لازماً اخذ کرے گا کہ اوّلاً یہودیوں اور عیسائیوں کا موجودہ ’’گٹھ جوڑ‘‘محض ظاہری اور سطحی ہے اور ثانیاً اب دُنیا کا خاتمہ اور اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ کا مرحلہ زیادہ دور نہیں ہے‘ لیکن سردست اِن حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نگاہوں کو یہودیوں اور عیسائیوں کے تعلقات کے تین اَدوار پرمرکوز کر دیجیے جن کا مختصر بیان حسب ذیل ہے:
۱) پہلا دَور عیسوی تقویم کی پہلی تین صدیوں پرمحیط ہے جن کے دوران پیروانِ مسیح علیہ السلام کی تعداد قلیل تھی (اور ان میں معتد بہ تعداد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل موحد پیروکاروں کی بھی شامل تھی) چنانچہ ان پر دو جانب سے تشدد ہو رہا تھا‘ یعنی ایک یہودیوں کی طرف سے اور دوسرے بُت پرست رومیوں کی جانب سے.
۲) اس صورتِ حال میں انقلاب چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں آگیا جب سلطنت روما نے عیسائیت قبول کر لی. لہذا اب معاملہ برعکس ہو گیا اور یہودیوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا اور انہیں بدترین تشدد اور تعذیب کا نشانہ بننا پڑا. اس لیے کہ وہ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کے قاتل تھے‘ جن کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ان کی محبت اور عقیدت کا ’’غلو‘‘(النساء:۱۷۱) اس درجہ شدید تھا کہ انہیں الوہیت میں شریک کر دیا تھا. یہ دَور کم و بیش ایک ہزار سال تک جاری رہا.
۳) اِس صورت حال میں جو انقلاب تدریجاً برپا ہوا جس کے نتیجے میں بالآخر یہودیوں اور عیسائیوں کا وہ ’’گٹھ جوڑ‘‘ پیدا ہوا جس کی پیشگی خبر قرآن حکیم نے بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ (المائدۃ:۵۱) کے الفاظ میں دے دی تھی‘ وہ یہودی سیاست اور ذہانت کا شاہکار ہے. اور لطف یہ ہے کہ اس کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو آلۂ کار بنایا. چنانچہ پہلے انہوں نے آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ہسپانیہ کی فتح میں مسلمانوں کی مدد کی‘ اس لیے کہ ہسپانیہ کے عیسائی ان کے بدترین دشمن تھے اور انہیں توہین و تذلیل ہی نہیں تشدد وتعذیب کا نشانہ بنا رہے تھے ‘اور دنیا کا مسلّم اصول ہے کہ کسی کے دشمن کا دشمن اس کا دوست بن جاتاہے. اس کا نتیجہ وہ نکلا جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے ‘یعنی مسلم سپین ان کے لیے امن اور عافیت کا گہوارہ بن گیا. چنانچہ اسی سرزمین کو انہوں نے عیسائیت کے قلعے میں نقب لگانے کے لیے استعمال کیا اور غرناطہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں سے علم کے جو سوتے پھوٹ کر فرانس اور جرمنی کی جانب بہہ نکلے ان پر ’’لبرلزم‘‘ کے عنوان سے ذہنی و فکری آوارگی اور اخلاقی و عملی بے راہ روی کے اضافی ردے چڑھا کر یورپ کے عیسائی معاشرے میں اپنے اثر و نفوذ کی راہیں ہموار کر لیں‘ اور پھر جب اوّلاً احیاء العلم (Renaissance) اور اصلاحِ مذہب (Reformation) کی تحریکوں‘ اور بالآخر پوپ کے اختیارات اور کلیسا کے اقتدار کے خلاف احتجاج (protest) کی تحریک کے نتیجے میں پاپائیت کی گرفت کمزور پڑی تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ممالک میں اس سودی کاروبار کی اجازت حاصل کر لی جو اس سے قبل عیسائی یورپ میں مطلقاً حرام اور ممنوع تھا. اور اس طرح ایک جانب فکری و اخلاقی آوارگی کے جال‘ اور دوسری جانب سودی معیشت کے چنگل میں پھنسا کر یہود نے یورپ کے عیسائی معاشرے پر اپنی وہ گرفت مضبوط کر لی جو رفتہ رفتہ شدید سے شدید تر ہو کر بالآخر آج اس صورت میں موجود ہے کہ پورے عالم عیسائیت پر فیصلہ کن غلبہ ’’واسپ‘‘(White Anglo Saxon Protestants) کا ہے‘ جن کے مضبوط ترین گڑھ انگلستان اور امریکہ ہیں… اور خود اُن کے سر پر سوار ہے صیہونیت کی بدنامِ زمانہ یہودی تحریک. چنانچہ یہ اسی کا نمایاں ترین مظہر ہے کہ دو ہزار سال سے قائم شدہ عقیدے کے برعکس چند سال قبل پاپائے روم نے ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے یہودیوں کو حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کے الزام سے بری کر دیا… ؏ ’’کہ ہم نے انقلابِ چرخِ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں!‘‘واقعہ یہ ہے کہ ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!‘‘ کی اس سے زیادہ نمایاں مثال دنیا کی پوری تاریخ میں شاید ہی کبھی سامنے آئی ہو!