جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ وقوعِ قیامت تو چونکہ قرآن مجید کا سب سے زیادہ کثیر الذکر موضوع ہے‘ لہذا اس سے تو کسی مسلمان کو مجالِ انکار ہو ہی نہیں سکتی‘ قربِ قیامت کی ان علامات سے بھی جو متذکرہ بالا احادیث میں بیان ہوئی ہیں‘ شاید ہی کوئی مسلمان اختلاف کرے‘ اِلاّ یہ کہ ان کے بعض الفاظ کی تعبیر و تأویل میں کسی جزوی اختلاف کی گنجائش ہو. اسی طرح عین وقوعِ قیامت کے وقت جن واقعات و حوادث کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ بھی جدید سائنسی نظریات کے پیش نظر کچھ ایسے مستبعد اور’’اَن ہونے‘‘ نظرنہیں آتے‘ جیسے مثلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا‘ یا زمین کا تین مقامات پر ’’خسف‘‘ یعنی بری طرح دھنس جانا‘ یا بہت عظیم آگ‘ یا بے پناہ دھواں! اس لیے کہ جدید طبیعیات کے نزدیک جس طرح اِس وقت کل کائنات ایک عظیم پھلجھڑی کے مانند اپنے محور پر تیزی کے ساتھ گردش کرتے ہوئے کھلتی اور پھیلتی جا رہی ہے‘ اسی طرح ایک وقت آئے گاکہ وہ برعکس رُخ پر چکر کھاتی ہوئی سکڑتی اور سمٹتی چلی جائے گی‘ تو یہ کیا بعید ہے کہ اس بڑی قیامت سے قبل کی چھوٹی قیامت کے موقع پر نظامِ شمسی میں وہ اختلال پیدا ہو جائے اور زمین کی گردش ؏ ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو!‘‘ کے انداز میں مغرب سے مشرق کی بجائے مشرق سے مغرب کی جانب ہو جائے‘ جس کے نتیجے میں سورج مغرب سے طلوع ہونے لگے. مزید برآں ‘جیسے کہ سورۃ القیامۃ کی آیات ۸ اور ۹ میں وارد ہوا ہے‘ چاند اور سورج یکجا ہو جائیں (۱) اور چاند سورج میں دھنس جائے اور خود زمین پر بھی اتنے بڑے بڑے شہاب گریں کہ وہ تین جگہ سے بری طرح دھنس جائے اور اس دھنسنے کے باعث اس کے اندر کی گیس اور آگ کا طوفان ابل پڑے.
البتہ درمیانی عرصہ کے چار عظیم واقعات کے بارے میں مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تو ایک معتدبہ حصہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ہی‘ بہت سے ایسے علماء و مفسرین بھی مذبذب اور متردّد ہیں جو عہدِ حاضر (بلکہ صحیح تر الفاظ میں ماضی قریب) کی نیوٹن کی سائنس پر مبنی ’’عقلیت پرستی‘‘ کا شکار ہو گئے. ان چار عظیم واقعات کی جانب اشارات تو اگرچہ قرآن مجید میں بھی موجود ہیں لیکن ان کی تفصیلی خبریں اور پیشین گوئیاں ان احادیث نبویہؐ میں وارد ہوئی ہیں جو کتاب الفتن کے مختلف ابواب میں شامل ہیں. ان عظیم واقعات کے مابین زمانی ترتیب یہ ہے: (۱) سب سے پہلے ’’اَلْمَلْحَمَۃُ الْکُبْرٰی‘‘یعنی تاریخ انسانی کی ’’عظیم ترین جنگ‘‘جس کی جانب اشارہ سورۃ الکہف کی دوسری آیت میں بَاْسًا شَدِیْدًا کے الفاظ میں وارد ہوا ہے‘ لیکن جس کی تفاصیل کتبِ حدیث کے ’’باب الملاحم‘‘ میں بیان ہوئی ہیں. (۲) ’’المسیح الدَّجّال‘‘ کا خروج اور اس کے ہاتھوں مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی عظیم تباہی یا بالفاظِ دیگر اس کے ذریعے ’’اُمّیین‘‘ پر اللہ کے عذاب کے دورِ ثانی کی تکمیل. (۳) حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کانزول اور ان کے ہاتھوں دجال کا قتل اور یہودیوں کا آخری قلع قمع‘ یا بالفاظِ دیگر اللہ کا عذابِ استیصال ‘چنانچہ جہاں تک نزولِ عیسٰی ؑ کا تعلق ہے اس کا بھی واضح اشارہ سورۃ الزخرف کی آیت ۶۰ میں ان الفاظ میں موجود ہے کہ : وَاِنَّـہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ ’’اوروہ (یعنی عیسیٰ ؑ) ایک نشانی ہیں قیامت کی!‘‘ اور بالآخر (۴) اسلام کا عالمی غلبہ اور پورے کرۂ ارضی پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کا قیام!
۱۷؍مئی۱۹۹۳ء
(۱) وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾ (القیٰمۃ)
ترجمہ : ’’اور چاند بے نور ہو جائے گا . اور سورج اور چاند یکجا ہو جائیں گے‘‘.