اس صورت حال کے بعض اسباب تو عمومی ہیں اور بعض خصوصی. عمومی اسباب میں سے چند یہ ہیں:
۱) اگرچہ خالص سائنس کی دنیا میں تو نیوٹن کی طبیعیات کا دَور ختم ہو چکا ہے‘ لیکن عوامی سطح پر یورپ اور امریکہ تک میں تاحال اسی کے جامد نظریات و تصورات کا سکہ رواں ہے‘ لہٰذاعام طبعی قوانین کے خلاف کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے ذہن بالعموم (۱) اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾ (الحج) تیار نہیں ہیں. (گزشتہ سال مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے اپنے سالانہ محاضراتِ قرآنی کے لیے انگلستان کے نو مسلم سکالر جناب عبدالحکیم کو دعوت دی تھی جو حکمت تبلیغ کے تحت مغرب میں اپنا سابق نام گائی ایٹن ہی استعمال کرتے ہیں‘ اور انہوں نے بھی اپنے ایک خطبے میں اسی بات کی گواہی دی تھی کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ تا حال ذہنی اعتبار سے نیوٹونین فزکس ہی کے دور میں جی رہے ہیں.)
۲) عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی باتوں پر توجہ سے جذبۂ عمل کمزور پڑ جاتا ہے‘ اور ذہنی اور نفسیاتی طو رپر لوگ کسی ’’مَردے ازغیب‘‘ کے انتظار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں. اور یہ بات خام اور نیم پختہ اذہان کے اعتبار سے درست بھی ہے!
۳) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ہی چیزوں کا سہارا لے کر اُمت کی تاریخ کے دوران مختلف مواقع پر شہرت و عزت اور نام و نمود کے خواہاں حوصلہ مند لوگ مختلف دعوے کر کے عوام کے دین و ایمان کے لیے فتنہ کا سامان فراہم کرتے رہے ہیں‘ اور کون کہہ سکتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں!
ان پر مستزاد ہیں وہ دو خصوصی اسباب جن کا تعلق ان دو فتنوں سے ہے جو گزشتہ صدی کے اواخر میں سائنسی عقلیت کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی پیدا ہوئے اور تا حال پروان چڑھ رہے ہیں. یعنی (۱) فتنۂ قادیانیت اور (۲) فتنۂ استخفاف و انکارِ حدیث. ان میں سے مؤخر الذکرنے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں حدیث نبوی ؐ کی وقعت و اہمیت کو کم کر دیا ہے. چنانچہ جن لوگوں کے اَذہان اس فتنے سے زیادہ مسموم ہیں وہ تو حدیث نبویؐ کی حجیت کا صریح انکار کر دیتے ہیں‘ باقی بھی عملاً اس کی جانب سے ’’غض بصر‘‘ اور صرفِ نظر کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں. رہا مقدم الذکر فتنہ تو اس کے بانی اور مؤسس نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ غضب ڈھایا کہ نہ صرف خود مجدّد اور مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ بلکہ ؎
’’آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کی صفات!‘‘
کی بحث چھیڑ کر اور پھر خود ہی کو مثیلِ مسیحؑ اور مسیح موعودؑ قرار دے کر نزولِ مسیحؑ کا باب ہی بند کر دیا (جس کے لیے ’’رفع مسیح ؑ‘‘ کا انکار بھی لا محالہ ضروری تھا!)
لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ ان واقعات و حوادث کے سلسلے کی پہلی کڑی‘ یعنی ایسی ہولناک اور تباہ کن جنگ جس کا میدان مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک بنیں گے‘ اب بالکل نوشتۂ دیوار کے مانند سامنے کی بات ہے‘ اور ساتھ ہی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جہاں تک ان واقعات و حوادث کی ان تفاصیل کا تعلق ہے جو احادیث میں وارد ہوئی ہیں‘ ان میں یقینا استعاراتی زبان بھی استعمال ہوئی ہے. اس لیے کہ اب سے چودہ سو برس قبل آج کے سلاحِ جنگ اور ذرائع رسل و رسائل کا بیان اسی طور سے ممکن تھا‘ اور مختلف راویوں کی روایات میں لفظی فرق اور زمانی ترتیب کا گڈ مڈ ہو جانا بھی عین قرین قیاس ہے. جہاں تک ان کے مجموعی خاکے کا تعلق ہے‘ راقم اپنے مطالعہ اور فہم القرآن کی بنا پر پورے انشراحِ صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ قرآن کے فلسفہ و حکمت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ اور بالخصوص قرآن کے اس قانونِ عذاب کے عین مطابق ہے جو صفحاتِ گزشتہ میں بیان ہو چکا ہے.
۱۸؍مئی ۱۹۹۳ء