اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ!
یعنی ’’اے اُمت مسلمہ! تو ذلیل و خوار تو اس سبب سے ہوئی ہے کہ تو نے قرآن سے منہ موڑ لیا ہے‘لیکن تو شکوہ گردشِ دوراں کا کر رہی ہے!‘‘ اور ’’اے وہ قوم جو شبنم کے مانند زمین پر پڑی ہوئی ہے! (اور دشمن تجھے پاؤں تلے روند رہے ہیں) تیری بغل میں وہ کتابِ زندہ موجود ہے (جو تجھے اس ذلت و رسوائی سے رستگاری عطا کر سکتی ہے!)‘‘… اسی طرح ان گزارشات کے ذریعے اُمت ِ مسلمہ کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہے کہ ہم اِس وقت در حقیقت اس جرم کی پاداش میں عذابِ الٰہی میں گرفتار ہیں کہ ہم دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نمائندے اور اس کے دینِ حق کے علمبردار ہونے کے مدعی ہو کر اپنے عمل کے ذریعے ان سب کی تکذیب کر رہے ہیں. اور ؎
’’فلک کا جورِ مسلسل جواب دے اس کا
ہم اپنے حال میں کب انقلاب دیکھیں گے؟‘‘
ْ
کے سوال کا صرف ایک جواب ہے اور وہ یہ کہ اس عذابِ الٰہی سے نجات کے حصول کا راستہ صرف یہ ہے کہ ہم ابتداء ً کم از کم کسی ایک خطۂ ارضی میں اللہ کے کامل دین حق اور اس کے معتدل اور متوازن نظامِ عدلِ اجتماعی کو بلا کم و کاست قائم کر کے اللہ کی نمائندگی کا حق ادا کر دیں اور اس طرح شہادت علی الناس کی اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہوں جس کے لیے ہمیں بحیثیت اُمت برپا کیا گیا تھا. اور ؏ ’’گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!‘‘ کے مصداق اگر ہم اس بنیادی جرم سے باز نہیں آتے اور اس اصل کوتاہی کی تلافی نہیں کرتے تو نہ امریکہ کی کاسہ لیسی ہمارے امراض کا ازالہ کر سکتی ہے نہ کوریا کی نقالی ہماری ترقی اور استحکام کی ضمانت دے سکتی ہے. اس لیے کہ ؎
’’اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ !‘‘
کے مطابق اُمت ِ مسلمہ کا معاملہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح نہیں ‘بلکہ ہر اعتبار سے منفرد اور مختلف ہے.
اب اس سے پہلے کہ کتب حدیث کے ’’ابوابِ ملاحم‘‘ یعنی تاریخ انسانی کے آخری دور میں پیش آنے والی عظیم اور تباہ کن جنگوں کے سلسلے کے تذکرہ پر مشتمل ابواب کی چند اہم احادیث اور ان میں سے خاص طور پر ایسی احادیث کا تذکرہ کیا جائے جن میں وارد شدہ پیشین گوئیوں کا عالمِ واقعہ میں ظہور بالکل ایسے انداز میں شروع ہو چکا ہے جیسے صبح طلوع ہوتی ہے ‘مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ عالم مادّی میں وہ عظیم جنگیں جن اسباب کی بنا پر ظہور میں آئیں گی ان سے قطع نظر مشیت ایزدی میں ان کی غرض وغایت کیا ہو گی؟
یہ بات ان احادیث سے تو صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہی ہے کہ ان جنگوں کا میدان مشرقِ وسطیٰ بنے گا‘عالمی حالات اور واقعات بھی ایک عرصہ سے اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ آئندہ جنگ عظیم یعنی اس صدی کی تیسری عالمگیرجنگ یورپ میں نہیں مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جائے گی. اس لیے بھی کہ یورپ دو عالمگیر جنگوں کی تباہی برداشت کر کے اب اتنا ’’سمجھ دار‘‘ ہو گیا ہے کہ تیسری جنگ کا میدان اپنے علاقے کو نہیں بننے دے گا،ا ور اس لیے بھی کہ عہد حاضر کی سب سے زیادہ قیمتی متاع یعنی تیل کے عظیم ترین ذخائر اسی علاقے میں ہیں جسے بجا طور پر سیّال سونا کہا جاتا ہے.
اب ظاہر ہے کہ اس علاقے میں موجودہ اُمت مسلمہ یعنی اُمت محمدﷺ کا افضل تر حصہ یعنی ’’اُمّیین‘‘ یا عرب مسلمان تو چودہ سو برس سے آبا دہیں ہی‘اس صدی کے آغاز سے سابقہ اور معزول شدہ اُمت مسلمہ یعنی یہودیوں کی بھی از سر نو آباد کاری زور وشور کے ساتھ شروع ہو گئی تھی‘جو عنقریب اپنے کلائمیکس کو پہنچ جائے گی اور پوری دنیا سے تمام یہودی کشاں کشاں یہیں آ کر آباد ہو جائیں گے. چنانچہ ان عظیم جنگوں یا سلسلۂ ملاحم کے ذریعے ہولناک تباہی کی صورت میں اللہ کے قانونِ عذاب کے مطابق شدید ترین کوڑے ان ہی دونوں پر پڑیں گے‘لیکن ان کے مابین بالآخر ایک عظیم فرق و تفاوت ظاہر ہو گا. یعنی سابقہ معزول‘مغضوب اور ملعون اُمت یعنی یہود پر تو اللہ کے اس ’’عذابِ اکبر‘‘ کے فیصلے کا نفاذ ہو گا جس کی مستحق وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے کفر اور آنجنابؑ کو اپنے بس پڑتے سولی پر چڑھوا دینے کی بنا پر اب سے دو ہزار برس قبل ہو چکی تھی‘لیکن جس کے نفاذ کو ایک خاص سبب سے مؤخر کر دیا گیا تھا‘چنانچہ اب اسے ان ہی حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے اور مسلمانوں کے ہاتھوں نسیاً منسیاً اور نیست و نابود کر دیا جائے گا‘بالکل جیسے حضراتِ نوح‘ہود ‘صالح‘لوط اور شعیب علیہم السلام کی اقوام اور آلِ فرعون اپنی اپنی جانب بھیجے جانے والے رسولوں کی نگاہوں کے سامنے ہلاک کیے گئے تھے. لیکن اس کے برعکس چونکہ موجودہ اُمت ِ مسلمہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی اُمت ہے اور آنحضور ﷺ کے قول کے مطابق خود آخری اُمت کی حیثیت رکھتی ہے‘مزید برآں وہ صرف ایک نسل پر مشتمل نہیں بلکہ ’’ملٹی نیشنل‘‘ اُمت ہے‘لہذا اسے اس کے جرائم کے بقدر سزا دینے کے بعد توبہ کی توفیق اور اصلاح کا موقع عنایت کر دیا جائے گاجس سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور دین حق کے غلبے کا دورِ ثانی شروع ہو گا‘جو اس بار پورے عالم انسانی اور کل روئے ارضی کو محیط ہوگا‘جس کی صریح اور واضح خبریں دی ہیں جناب صادق و مصدوق ﷺ نے‘اور جس کی کوئی ادنی ٰ جھلک اور دھندلی تصویر دیکھ لی تھی چودھویں صدی ہجری کے نابغہ اور وِژنری علامہ اقبال نے جس پر وہ خود بھی حیرت و استعجاب کی تصویر بن کر رہ گئے تھے کہ: ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
اور: ؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!
اور یہ غالباً صرف اس افضل ترین اُمت کے بھی افضل تر حصے کی سزا میں ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’’تکلیف پر توہین کے اضافے‘‘ (To add insult to injury) کی غرض سے ہوا ہے کہ ایک مغضوب و ملعون اور "Condemned" قوم کو دو ہزار سال تک باقی بھی رکھا گیا اور پھر عارضی طور پر سنبھالا بھی دیا گیا(اگرچہ اس کے لیے یہ مرنے والے مریض کے آخری سنبھالے یا بجھنے والی شمع کی آخری بھڑک کی حیثیت رکھتا ہے) ‘تاکہ موجودہ اُمتِ مسلمہ کے افضل ترین حصے کو اس کے ہاتھوں پٹوا کر گویا وہ صورت پیدا کر دی جائے جو یوپی کے دیہات میں اختیار کی جاتی ہے‘یعنی یہ کہ کسی شخص کی سزا میں توہین و تذلیل کا عنصر شامل کرنے کے لیے اسے کسی چمار کے ہاتھوں جوتے لگوائے جاتے ہیں. واللہ اعلم! ۱۵؍جون ۱۹۹۳ء