سورۃ الفاتحہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
’’سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو پالنے والا سارے جہان کا. بیحد مہربان نہایت رحم والا. مالک روزِ جزا کا.تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں. بتلا ہم کو راہ سیدھی. راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے فضل فرمایا. جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے.‘‘
ایمان کے مباحث میں پہلا درس سورۃ الفاتحہ پر مشتمل ہے جو گویا قرآن کے فلسفہ وحکمت کے خلاصے کی حیثیت رکھتی ہے. یہی سبب ہے کہ اسے ’’اساس القرآن‘‘ بھی کہا گیااور ’’اُمّ القرآن‘‘ بھی. اس سورۂ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاں تک ایمان باللہ یا توحید اور ایمان بالآخرت یا معاد کا تعلق ہے ان تک تو ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان عقل وفطرت کی رہنمائی میں از خود بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے. جس کے نتیجے میں ایک بے پناہ جذبۂ عبادت واستعانت اس کے اندر ابھرتا ہے لیکن جہاں تک ’’صراط مستقیم‘‘ یعنی زندگی بسر کرنے کے لئے معتدل اور متوازن طریقے کا معاملہ ہے وہاں انسانی عقل بالکل بے بس ہے اور انسان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ گھٹنے ٹیک کر اللہ سے ہدایت کی درخواست کرے. اور اصلاً یہی ایمان بالرسالت کی عقلی بنیاد ہے!