پہلی آیت ‘جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘صرف ایک لفظ ’’اَلرَّحْمٰنُ‘‘ پر مشتمل ہے. ’’الرحمن‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے. آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام وارد ہوئے ہیں اور حدیث شریف میں بھی ان کا ذکر ہے. ویسے تو قرآن مجید سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ’’فَلَــہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی‘‘ یعنی جتنے بھی اچھے نام ہیں سب اللہ کے ہیں. جتنی اچھی صفات کا ہم تصور کرسکتے ہیں وہ تمام صفات ذاتِ باری تعالیٰ میں بتمام و کمال موجود ہیں. جس اچھائی‘جس خوبی‘جس خیر اور جس کمال کا ہمارے ذہن میں خیال آسکتا ہے وہ اللہ پاک کی ذات میں موجود ہے. لیکن تعین کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام وہی ہیں جو قرآن مجید میں یا حدیث شریف میں وارد ہوئے ہیں. ان ناموں میں سب سے زیادہ محبوب نام ’’اللہ‘‘ ہے اور اس سے قریب ترین نام ’’رحمن‘‘ہے. چنانچہ تلاوت ِقرآن مجید کا آغاز بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے کیا جاتا ہے.پھر سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت کے الفاظ بھی یہ ہیں: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ اور دوسری آیت ہے: الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
واقعہ یہ ہے کہ لفظ ’’اللہ‘‘ تو عرب میں بہت معروف تھا. نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل بھی اہل عرب ’’اللہ‘‘ کے نام سے بخوبی واقف تھے. وہ اللہ سے دعائیں کرتے تھے اور اپنے تمام شرک کے باوجود اس حقیقت کو مانتے تھے کہ اس کائنات کے تخلیق کرنے میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے. اس پوری کائنات کا خالق تنہا وہی ہے. چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے: وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ (لقمان:۲۵) ’’(اے نبی ﷺ ) اگر آپ ان سے سوال کریں کہ یہ آسمان اور زمین کس نے پیدا کیے تو وہ لازماً کہیں گے کہ اللہ نے !‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے دوسرے ناموں میں سب سے زیادہ نمایاں اور ایک خاص پہلو سے سب سے زیادہ پیارا نام ’’رحمن‘‘ہے. قرآن مجید میں جب یہ نام بار بار آیا تو اہل عرب نے اعتراض کیا کہ یہ ’’رحمن‘‘ کون ہے؟ سورۂ بنی اسرائیل کے آخر میں فرمایا گیا: قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ (آیت۱۱۰) ’’(اے نبیﷺ ) ان سے کہیے‘چاہے اللہ کہہ کر پکارلو‘چاہے رحمن کہہ کر پکار لو‘پس (یہ جان لو کہ جس کو پکار رہے ہو) تمام اچھے نام اُسی کے ہیں‘‘. تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ’’اللہ‘‘ کے قریب ترین جو نام آتا ہے وہ ’’رحمن‘‘ہے.
لیکن میں نے جو عرض کیا کہ ایک دوسرے پہلو سے یہ سب سے زیادہ پیارا نام ہے تو اس بات کو بھی سمجھ لیجیے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ صفاتی نام اس کی صفت ِرحمت سے بنا ہے. اللہ تعالیٰ کی صفت ِ رحمت وہ صفت ہے جس کے ہم سب سے زیادہ محتاج ہیں. ہمارا معاملہ تو بہت دُور کی بات ہے‘خود نبی اکرمﷺ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ضرورت مند ہیں. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا: لَنْ یُدْخِلَ اَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ’’کوئی شخص بھی محض اپنے عمل کی بنا پر ہرگز جنت میں داخل نہ ہوسکے گا‘‘. اس پر کسی صحابیؓ نے ہمت کر کے یہ سوال کرلیا : ’’حضورکیا آپ بھی نہیں؟‘‘ تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: وَلَا اَنَا‘ اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ (۱) ’’ہاں میں بھی نہیں‘ مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنے خصوصی فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے.‘‘ اب آپ اندازہ کیجیے کہ اگر اللہ کے نبیوں‘ پیغمبروں اور سید المرسلین سید الاولین والآخرین محمدرسول اللہ ﷺ کو رحمت ِخداوندی کی احتیاج ہے تو ہم اس سے کس طرح مستغنی ہوسکتے ہیں؟ ہم سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شدید احتیاج رکھتے ہیں. قرآن مجید میں ایک مقام پر آتا ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿۱۵﴾ (فاطر) ’’ اے لوگو! تم سب کے سب اللہ کی ذات کے فقیر (محتاج) ہو. غنی اور حمید ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے‘‘. حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے جان بچا کر نکلے اور پا پیادہ پورا صحرائے سینا عبور کر کے تن تنہا مدین پہنچے تو آبادی کے باہر کنوئیں پر بیٹہ گئے. آپؑ اس وقت انتہائی کسمپرسی کے عالم میں تھے‘وہاں آپؑ کی کوئی جان پہچان تک نہ تھی. اس حال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک پر جو دعا آئی وہ قرآن حکیم میں بایں الفاظ منقول ہے: رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (القصص) ’’پروردگار! میں ہر اُس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری جھولی میں ڈال دے‘‘. اور واقعہ یہ ہے کہ مخلوق کا معاملہ اللہ کے سامنے اسی فقر اور احتیاج کا ہے‘اور ہم رحمت ِ خداوندی کے ہر آن محتاج ہیں.
اللہ تعالیٰ کی اس صفت رحمت سے اس کے دونام بنے ہیں: رحمن اور رحیم ! اور یہ واحد صفت ہے جس سے اللہ کے دو نام آتے ہیں. ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان میں رحمت کی د و شانوں کا ظہورہورہا ہے. ’’رحیم‘‘فعیل کے وزن پر صفت ِمشبہ ہے جو اس کیفیت کو ظاہر کررہا ہے جو اس دریاکی مانند ہے جو مسلسل بہہ رہا ہو جس میں سکون‘دوام اور پائیداری ہو اور ’’رحمن‘‘رحمت خداوندی کی اس شان کو ظاہر کرتا ہے جو ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہے‘جس میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے. فَعلان کے وزن پر عربی زبان کے جو بھی الفاظ آتے ہیں ان میں یہ شدت پائی جاتی ہے‘ ایک ہیجانی اور طوفانی کیفیت ان کا خاصہ ہے. عرب کہے گا: ’’اَنَا عَطْشَانُ‘‘ کہ میں بہت پیاسا ہوں.یعنی پیاس سے جان نکل رہی ہے. بھوک سے کوئی شخص مررہا ہے تو وہ کہے گا: ’’اَنَا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المرضیٰ‘ باب تمنی المریض الموت. وصحیح مسلم‘ کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار‘ باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ بل برحمۃ اللّٰہ تعالیٰ.
جَوْعَانُ‘‘ اسی طرح ’’غَضْبَانُ‘‘ کے معنی ہیں بہت زیادہ غضبناک. اسی طرح یہ لفظ ’’رحمن‘‘ بنا ہے ‘یعنی انتہائی رحم فرمانے والا‘جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طر ح ہے. تو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت گویا انتہائی پیاری اور محبوب صفت ہے‘اور اس میں بھی شانِ رحمانیت ایک عجیب کیفیت کی حامل ہے. اسی شانِ رحمانیت کے حوالے سے فرمایا گیا:
اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾
’’اس رحمن نے تعلیم دی ہے قرآن کی!‘‘
قرآن کی عظمت کو اس سے سمجھو کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحمانیت سے ہے. اگر فرمایا جاتا: ’’اَللّٰہُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘ تو بھی بات مکمل ہو جاتی‘لیکن قرآن کا ذکر اللہ پاک کی صفت ِرحمانیت کے حوالے سے ہورہا ہے. اَلرَّحْمٰنُ: جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ہے‘اس نے قرآن سکھایا.یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ نے صرف قرآن نہیں سکھایا‘اس نے تو انسان کو بہت کچھ سکھایا ہے. انسان کے پاس جو بھی علم ہے‘وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے. سورۃ البقرۃ کی ابتدا میں حضرت آدم علیہ السلام کا جو قصہ بیان ہوا ہے ‘اس میں فرمایا گیا: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا (آیت۳۱) ’’اور اللہ نے سکھا دیے آدم کو تمام کے تمام نام‘‘. اور اس موقع پر فرشتوں کا جواب یہ تھا: سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ (آیت۳۲) ’’تو پاک ہے‘ہمیں کوئی علم حاصل نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں عطا کیا‘‘. تو جن و انس ہوں‘ملائکہ ہوں‘انبیاء و رسل ہوں،اولیاء اللہ ہوں‘یا بڑے سے بڑا سائنسدان اور بڑے سے بڑا فلسفی ہو‘جس کے پاس بھی علم کی کچھ رمق موجود ہے‘وہ آخر کہاں سے آئی ہے؟ آیۃ الکرسی میں فرمایا گیا: وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ (البقرۃ:۲۵۵) یعنی مخلوق میں سے کوئی اس کے علم میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کرسکتا‘سوائے اتنے حصے کو جتنا وہ خود کسی کو دینا چاہے. بلکہ ایک نومولود بچہ جو دنیا میں آتا ہے‘اسے یہ علم ہوتا ہے کہ اس کا رزق کہاں ہے‘اس کی روزی کہاں ہے. وہ ماں کی چھاتی پر جس طرح منہ مارتا ہے‘اس کی تربیت اسے کس نے دی ہے؟ یہ شعور وہ کہاں سے لے کر آیا ہے؟ وہ کون سی تربیت گاہ تھی جہاں سے وہ یہ ٹریننگ لے کر آیا ہے؟ تو معلوم ہوا کہ علم خواہ جبلی ہو‘خواہ فطری ہو‘خواہ وہ ہمارے نفس میں ودیعت شدہ ہو اور خواہ وہ ہم تعلیم کے نظام کے ذریعے سے حاصل کرتے ہوں‘اس کا منبع اور سرچشمہ ذاتِ باری تعالیٰ ہے اور ہمیں سبھی کچھ اُسی نے سکھایا ہے. لیکن اُس نے جو کچھ سکھایا ہے‘اس میں چوٹی کی چیز قرآن ہے. یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے بہت بلند صفت ہے رحمتاوراس رحمت کی بہت بلند شان ہے جو لفظ ’’رحمن‘‘ میں ظاہر ہوتی ہے‘اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو کچھ سکھایا ہے‘اس میں سب سے چوٹی کی چیز جس کی تعلیم دی‘وہ قرآن حکیم ہے:اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾