ان چار آیات کی جو میں نے اس قدر تفصیل بیان کی ہے‘اور ایک ایک لفظ پر اتنا وقت صرف کرنے کے بعد آپ کو جس نتیجہ پر پہنچایا ہے‘جس کے لیے میں نے نسبت و تناسب کے قاعدے کا حوالہ بھی دیا ہے‘وہ نتیجہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک سادہ سے جملہ میں بیان فرمادیا ہے. اس حدیث کے راوی حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں. چونکہ میں اسے ان آیات کے ساتھ جوڑ رہا ہوں جن میں چوٹی کے مضامین بیان ہوئے ہیں تو یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ سند کے اعتبار سے یہ حدیث بھی چوٹی کا مقام رکھتی ہے. یہ حدیث امام بخاری‘امام ترمذی‘ امام ابودائود‘ امام ابن ماجہ‘ امام احمد بن حنبل اور امام دارمی وغیرہم ( رحمہم اللہ) نے روایت کی ہے. صحیح بخاری کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ کتب حدیث میں یہ چوٹی کی حیثیت کی حامل ہے. اس کے بارے میں ’’اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ‘‘ ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے. یعنی قرآن حکیم کے بعد یہ دنیا کی صحیح ترین کتاب ہے. صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے. وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (١)
(١) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ. وسنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی تعلیم القرآن. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب فی ثواب قراء ۃ القرآن. صحیح بخاری‘ سنن ترمذی‘ سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں.
اِنَّ اَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (حاشیہ از مرتب) ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا.‘‘
یعنی اہل ایمان میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں‘قرآن پڑھیں اور پڑھائیں. اور دیکھئے یہاں ’’خَیْرُکُمْ‘‘ کِن سے کہا جارہا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے! ظاہر بات ہے کہ صحابہ کرامؓ میں بھی فرقِ مراتب ہے‘ ان میں درجات ہیں: ؏ ’’گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی!‘‘ ہم اہل سنت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ ’’اَفْضَلُ الْبَشَرِ بَعْدَ الْاَنْبِیَاءِ بِالتَّحْقِیْقِ‘ اَبُوْبَکْرٍ الصِّدِّیْقُ رضی اللہ عنہ ‘‘ یعنی یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء کے بعد افضل البشر ہیں. آپؓ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقام ہے‘پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. خلفائے اربعہ کے بعد پھر عشرہ مبشرہ ہیں رضوان اللہ علیہم اجمعین . تو ظاہر ہے کہ ؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ . مزاج میں بہرحال کچھ نہ کچھ فرق ہے. حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طبیعت جمالی ہے‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جلالی ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر رحمت و شفقت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ دین کے معاملات میں بہت شدید ہیں. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں سچائی اور حیا کا مادہ بدرجہ ٔاتم موجود ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ مقدمات کے فیصلے کرنے میں بہت زِیرک ہیں. چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَرْحَمُ اُمَّتِی بِاُمَّتِی اَبُوْبَکْر‘ وَاَشَدُّھُمْ فِیْ اَمْرِ اللّٰہِ عُمَر‘ وَاَشَدُّھُمْ حَیَائً عُثْمَان‘ وَاَقْضَاھُمْ عَلِّیٌّ …… الخ (۱)
تو ظاہر بات ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نسبتیں ہیں. حضور ﷺ ان سے فرماتے ہیں:
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جوقرآن سیکھے اور اسے (دوسروں کو) سکھائے.‘‘