(۱) سنن النسائی‘ کتاب الافتتاح‘ باب تزیین القرآن بالصوت. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا‘ باب فی حسن الصوت بالقرآن. عن البراء بن عازبؓ .
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب حسن الصوت بالقراء ۃ للقرآن. وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن . ہیں. اصل کتاب تو لکھی ہوئی ہے لوحِ محفوظ میں‘ بالفاظِ قرآنی:
بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ (البروج)
ایک دوسری جگہ فرمایا:
فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾ (الواقعہ)
کہ یہ کتاب تو ’’ مکنون‘‘ ہے ‘جیسے کسی بہت ہی قیمتی ہیرے کو ڈبیہ میں بند کرکے ڈبیہ کو کسی بکس میں رکھا جاتا ہے. ساتھ ہی فرمایا کہ اسے صرف وہی چھوتے ہیں جو انتہائی پاک و طیب ہیں‘یعنی فرشتے. اس وقت ان سب آیات کی تشریح ممکن نہیں ہے. میں صرف سورۃ عبس کی آیات کا ترجمہ کررہا ہوں. ان باعزت صحیفوں کے بارے میں فرمایا:
مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾
’’بہت ہی رفیع الشان اور بہت ہی پاک کیے ہوئے (صحیفے ہیں).‘‘
اور کن کے ہاتھوں میں ہیں؟
بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾
’’ان لکھنے والوں کے ہاتھوں میں‘جو بڑے بلند مرتبہ اور نیکو کار ہیں.‘‘
اب ان آیات سے متعلق ایک حدیث سن لیجیے. سورۃ الرحمن کی چار آیات کا خلاصہ بھی میں نے آپ کو حدیث شریف سے سنایا ہے اور ان چار آیات کا خلاصہ بھی حدیث میں ہے. اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس کی راویہ ہیں. فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ (۱)
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن کا ماہر ہوجائے‘اس کو صحیح طور پر پڑھتا ہو‘اس کو سمجھتا ہو‘اس کا رتبہ بھی ان فرشتوں کا سا ہے جن کے لیے سورۃ عبس میں ’’سَفَرَۃٍ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. یعنی لوحِ محفوظ میں قرآن کو لکھنے والے بلند مرتبہ نیکو کار فرشتوں کا جو مقام و مرتبہ ہے‘وہی رتبہ ہے ان لوگوں کا جو قرآن کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں‘سمجھنے سمجھانے والے ہیں‘قرآن کی مہارت رکھتے ہیں‘پڑھتے ہیں تو صحیح پڑھتےہیں‘اس کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب تفسیر القرآن‘ باب عبس وتولی … وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل الماھر فی القرآن والذی یتتعتع بہ. واللفظ للمسلم.
مفہوم کو سمجھتے ہیں‘اور اسی کے تعلیم و تعلّم میں شب و روز لگے ہوئے ہیں.