اب آپ ذہن میں رکھیے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں میں سے چوٹی کی شخصیت علامہ اقبال کی ہے. ذہنی و فکری اعتبار سے پورے عالم ِ اسلام میں ان کی ٹکر کا آدمی اس صدی میں پیدا نہیں ہوا. intellectual level پر وہ بالکل مسلمہ طور پر بلند ترین شخصیت ہیں جو اس صدی میں پیدا ہوئی. اور دینی حلقوں سے‘ دارالعلوموں سے تعلیم یافتہ‘قال اللہ و قال الرسول کی فضائوں میں پلنے بڑھنے والوں میں اس صدی کی عظیم ترین شخصیت حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ تھے. آپؒ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم ہیں اور پھر ایسے ایسے بڑے شاگردوں کے استاد ہیں کہ جن کا نام سن کر انسان کی گردن خود بخود جھک جاتی ہے. مولانا حسین احمد مدنی‘مولانا شبیر احمد عثمانی‘مولانا اشرف علی تھانوی‘مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہم اللہ اور یہ سب کے سب شاگرد ہیں مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے. لفظ دیوبندی سے ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات کو تھوڑا سا مغالطہ ہو جائے. تو میں یہ وضاحت بھی کردوں کہ مولانا مرحوم اُس وقت جمعیت علمائے ہند کے صدر تھے جبکہ پورے ہندوستان میں ایک ہی جمعیۃ العلماء تھی. اُس وقت آج کی طرح دیوبندیوں‘بریلویوں اور اہل ِحدیث کی علیحدہ علیحدہ جمعیتیں نہ تھیں. جمعیۃ علمائے ہند پورے ہندوستان کے علماء کا متفقہ پلیٹ فارم تھی. بریلوی‘ دیوبندی اور اہل حدیث علماء سب اسی میں شامل تھے. بالفاظ دیگر دہلی‘ بدایوں اور اجمیر کے علماء اسی جمعیت میں تھے اور اُس وقت شیخ الہندؒ اس جمعیۃ علمائے ہند کے صدر تھے. پھر سیاسی اعتبار سے ان کے قد کاٹھ کا تصور اس سے کیجیے کہ انہوں نے ریشمی رومال کی تحریک چلائی تھی. شاید آپ میں سے بہت سوں نے اس تحریک کا نام بھی نہ سنا ہو. اُس وقت انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے جو ایک زبردست ٹیم بنی تھی‘اس کے بنانے والے یہی شیخ الہندؒ تھے. چنانچہ انگریزوں نے انہیں گرفتار کرلیا. آپ اس وقت حجازِ مقدس میں تھے اور شریف حسین جو والی ٔمکہ تھا‘اس نے غداری کرکے آپ کو گرفتار کروادیا. مکہ سے گرفتار کرنے کے بعد انہیں ہندوستان نہیں لایا گیا‘بلکہ بحیرۂ روم کے جزیرہ مالٹا میں رکھا گیا. گویا ؎
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!
اور انہیں اس وقت رہا کیا گیا جب ٹی بی تیسری سٹیج کو پہنچ چکی تھی. انگریز کو اندیشہ یہ تھا کہ اگر ہماری قید میں ان کی موت واقع ہو گئی تو طوفان کھڑا ہو جائے گا‘لہذا رہا کردیا گیا. رہا ہو کر جب ہندوستان پہنچے اور بمبئی کے ساحل پر قدم رکھا تو پہلے دن جو لوگ ملنے کے لیے حاضر ہوئے ان میں مہاتما گاندھی بھی تھا. وہ آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا تھا. اس سے آپ اندازہ کیجیے شیخ الہندؒ کی شخصیت کا.
شیخ الہندؒ اور علامہ اقبال کا ذکر میں یہاں اس لیے کررہا ہوں کہ یہ دونوںشخصیتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں جو سزا مل رہی ہے‘ وہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے. میں نبی مکرم ﷺ کی حدیث آپ کو سنا چکا ہوں اور ہمارے لیے مستند ترین بات حضورﷺ کا فرمان ہی ہے‘لیکن مزید وضاحت کے لیے اپنے ان بزرگوں کی بات بھی سن لیجیے.
علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ میں فرمایا کہ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر!
یہی بات انہوں نے فارسی میں بڑے پر شکوہ انداز میں کہی ہے ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂٖ
در بغل داری کتابِ زندۂٖ
کہ اے امت ِمسلمہ تو جو ذلیل و رُسوا ہوئی ہے اور دنیا میں اس طرح پامال کی جارہی ہے‘ یہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے. یہاں اقبال نے ’’مہجوری ٔ قرآن‘‘ کی ترکیب سورۃ الفرقان سے لی ہے‘جہاں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾
’’اور رسولؐ فریاد کریں گے کہ اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا.‘‘
تویہ ہے علامہ اقبال کی نظر میں ہماری ذلت و نکبت اور پستی و رسوائی کا اصل سبب جو اس نے قرآن پر گہرے غور و خوض کے نتیجے میں اخذ کیا ہے.