ہجرت و جہاد کی شرطِ لازم: التزامِ جماعت

یہاں یہ سوال اپنے سامنے رکھئے کہ کیا ہجرت اور جہاد کے یہ فرائض ایک منظم اور متحد جماعت کے بغیر بھی ادا کیے جا سکتے ہیں؟ کیا کوئی شخص اپنی انفرادی حیثیت میں ہجرت اور جہاد کا حق ادا کر سکتا ہے؟ آپ اپنے نفس اَمارہ کے خلاف تو کشمکش تنہا رہ کر بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن کیا اللہ کے دین کی اقامت اس طرح ممکن ہے؟ کیا کوئی فرد اپنی ذاتی 

(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الجہاد‘ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو. عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ- حیثیت میں اتنا طاقتور ہو سکتا ہے کہ وہ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی کو محض اپنے زورِ بازو سے نافذ کر سکے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب صرف نفی میں ہی ہو سکتا ہے. لہٰذا اگر ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کرنا ہے تو یہ کام ایک منظم جماعت کے بغیر ناممکن ہے. اگر اقامت دین کی جدوجہد فرض ہے تو یہ فرض ایک منظم جماعت کے بغیر محض انفرادی طور پر ادا نہیں کیا جا سکتا‘ اس کے لیے ایک جماعت کا ہونا لازم ہے. 

چنانچہ زیرمطالعہ حدیث میں یہ نکتہ خاص طور پر قابل غور ہے کہ حضور نے سب سے پہلے جس بات کا مسلمانوں کو حکم دیا وہ التزامِ جماعت ہے. یعنی مسلمانوں کے لیے یہ شے لازم کی گئی کہ وہ اپنے آپ کو ایک جماعت کی شکل میں منظم رکھیں . یہ جماعت اور اس کا نظم اس لیے مطلوب ہے کہ آخری دو فرائض یعنی ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ کو کماحقہ ٗ ادا کیا جا سکے. اس نکتے کی مزید وضاحت کے لیے میں چاہوں گا کہ آپ کے سامنے چند اور احادیث بھی آ جائیں جن میں جماعت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے. 

امام ترمذیؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
 
عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ‘ وَاِیَّاکُمْ وَالْـفُرْقَـۃَ‘ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ‘ وَھُوَ مِنَ الْاِثْـنَـیْنِ اَبْعَدُ (۱
’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے‘ اور تم تنہا مت رہو‘ اس لیے کہ اکیلے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے‘ لیکن اگر دو (مسلمان) ساتھ رہیں تو وہ دُور ہو جاتا ہے.‘‘

اس حدیث میں حضور نے مسلمانوں کو واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر ایک مسلمان جماعت سے الگ رہتا ہے تو شیطان اسے اپنا شکار بنا لیتا ہے اور صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے.

ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: 

یَدُ اللّٰہِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ ومَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ (۲

(۱) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی لزومِ الجماعۃ.
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ. 
’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے. جو شخص خود کو جماعت سے کاٹ لیتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا.‘‘

مراد یہ ہے کہ اللہ کی مدد اور حمایت مسلمانوں کی اجتماعیت کے لیے ہے نہ کہ افراد کے لیے. اگر ایک شخص اجتماعیت سے خود کو کاٹ لیتا ہے تو پہلی حدیث کی رُو سے وہ شیطان کے لیے نرم چارہ ثابت ہوتا ہے جو اسے صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے‘ اور اس طرح آخرت میں ایسا ‘ شخص جہنم کا مستحق بنتا ہے.

اس سلسلے کی تیسری روایت اصل میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے (اور علم حدیث کی رو سے یہ بھی ’’حدیث‘‘ ہی ہے). حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

اِنَّــہٗ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بَجَمَاعۃٍ وَلاَ جَمَاعَۃَ اِلَّا بِاِمَارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلاَّ بِطَاعَۃٍ (۱)
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں ہے‘ اور امارت کے بغیر جماعت نہیں ہے‘ اور امارت کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے ساتھ اطاعت نہ ہو‘‘.