اس پر قیاس کر کے سمجھ لیجیے کہ اسلام کے معاشی نظام کے بھی دو پہلو ہیں. چنانچہ ایک جانب قانونی اور فقہی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ایک نوع کی محدود سرمایہ داری (Controlled Capitalism) ہے‘ اس لیے کہ اس میں انفرادی سرمایہ کاری کی اجازت موجود ہے. اگرچہ اسے’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ بننے سے بعض تحدیدی اقدامات نے روک دیا ہے. دُوسری طرف اسلام کا روحانی و اخلاقی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں میں پورے انشراحِ صدر سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک نہایت اعلیٰ قسم کی روحانی اشتراکیت (Spiritual Socialism) ہے اور ایک ایسا کامل سوشلزم ہے کہ اس کے آگے کا تصور بھی ممکن نہیں. اس لیے کہ سوشلزم یا کمیونزم میں تو پھر بھی انسانی ملکیت کا اثبات موجود ہے‘ اگرچہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی‘ لیکن اسلام اپنی اخلاقی و روحانی اور صحیح تر الفاظ میں’’ایمانی تعلیم‘‘ کی رُو سے انسانی ملکیت کی کلی نفی کرتا ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں بار بار یہ الفاظ آتے ہیں : لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس سب کا مالک صرف اللہ ہے. انسان کسی اور شے کا مالک تو کیا ہو گا ‘خواہ وہ زمین ہو‘ مکان ہو‘ ساز و سامان ہو‘ روپیہ پیسہ ہو‘ وہ تو خود اپنا اور اپنے وجود کا مالک بھی نہیں. اُس کے ہاتھ پاؤں‘ اَعضاء و جوارح اور جسم و جان اور اس کی کل توانائیاں سب اللہ کی ملکیت ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا امین ہوں. بقول شیخ سعدیؒ ؎
ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالک ہر شے خدا ست!
یا بقول علامہ اقبال مرحوم
رزقِ خود را از زمیں بردن رواست
ایں متاعِ بندہ و ملک خدا ست
اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں بڑی کنفیوژن پائی جاتی ہے. سوشلسٹ ذہن رکھنے والے اہل قلم ایسی آیات اور احادیث کو اکٹھا کر کے ہر شے کی ملکیت کی کامل نفی کرتے چلے ہیں اور ضرورت سے زائد اپنے پاس رکھنے کی بھی‘ کہ جب قُلِ الۡعَفۡوَؕ (۱) فرما دیا گیا تو زائد چیز جبراً بھی وصول کر لی جائے گی. اس طرح وہ ایک کامل اسلامی سوشلزم کا نقشہ پیش کرتے ہیں‘ جب کہ وہ دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں. حالانکہ قانونِ وراثت بھی اسی قرآن میں موجود ہے‘ اور حضور اکرم ﷺ نے جو نظام برپا کیا تھا اس میں کہیں جبری مساوات دکھائی نہیں دیتی‘ بلکہ اس کے برعکس آزاد معیشت کے مواقع دیے گئے تھے کہ محنت کرو اور جائز ذرائع سے کماؤ ‘اور ان ذرائع سے تم جو کچھ کماؤ گے اس پر تمہارا حق تصرف(جو بہت قریب ہو جاتا ہے حق ملکیت کے) یہاں تک تسلیم کیا جائے گا کہ اس کو وراثتاً منتقل بھی کیا جا سکے. دوسری طرف ہمارے ہاں بعض مفکرین اور اصحابِ قلم نے صرف اس قانونی نظام کو اتنا نمایاں کیا ہے کہ (۱) یعنی جتنا ضرورت سے زائد ہے اللہ کی راہ میں دے ڈالو . (البقرۃ:۲۱۹) دوسرا پہلو دب گیا ہے‘ یعنی قُلِ الۡعَفۡوَؕ کی آیت ان کی تقریر و تحریر میں نہیں آتی.
یاد رہے کہ یہ کنفیوژن(الجھن) پورے خلوص کے ساتھ محض غلط فہمی کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے. اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ غلط فہمی ہمارے دورِ اوّل یعنی خلافت راشدہ کے دوران بھی پیدا ہو گئی تھی‘ مثلاً حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے غلبہ ٔزہد کے باعث یہ رائے قائم کی کہ ضرورت سے زائد اشیائے صرف اور کسی بھی مقدار میں سونا اور چاندی اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں. آپؓ نے آیۂ کنز (۱) کو بالکل اس کے ظاہری الفاظ پر محمول کیا. خلافت راشدہ کے اس نظام میں جس پر تمام امت جمع تھی اس رائے کو ایک انتہائی موقف قرار دیا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں انہیں مدینہ منورہ سے باہر چلے جانے کی ہدایت بھی کی گئی. ایک بیابان میں انہوں نے جھونپڑا ڈالا اور وہیں ان کا انتقال ہوا. (۲) یہ نظامِ اسلامی کا وہ رُوحانی پہلو ہے جس کی طرف اسلام انسانوں کو ترغیب دینا چاہتا ہے. یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے تزکیہ اور رُوحانی مراتب کے حصول کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے. اسلام کے ساتھ ایمان بھی ہے‘ اور اس سے اوپر احسان کا درجہ بھی ہے‘ (۳) مگر اس کو قانونی درجہ دے دینا ایک مغالطہ تھا جو حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو پورے خلوص اور اخلاص کے ساتھ لا حق ہوا.لیکن آج یہ مغالطہ جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ دیا جا رہا ہے ‘کیونکہ آج تو خلافت راشدہ کا نظام پورے کا پورا ہمارے سامنے موجود ہے اور اُمت کے اس اجتماعی فیصلے کو نظر انداز کرنا بغیر بدنیتی کے ممکن ہی نہیں.
(۱) سورۃ التوبۃ:۳۴
(۲) حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے احساس کا یہ عالم تھا کہ وفات کے وقت آپؓ نے زوجہ محترمہ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیا سانپ اور بچھو اپنے گرد جمع کر لیے ہیں! تو انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ سانپ اور بچھو؟ تو آپ نے معمولی چیزوں جیسے توا‘ چمٹا اور دیگچی کا حوالہ دے کر کہا یہ نہیں پڑے ہوئے میرے گرد؟ حضرت ابوذر ؓ کے اسی غلبہ ٔزہد کی وجہ سے آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو چاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ میرے ساتھی ابوذر کو دیکھ لے.
(۳) حدیث جبریل و سورۃ المائدۃ:۹۳