محترم صدرِ مجلس اور معزز خواتین و حضرات! آج میں اس مجلس میں خطاب کرتے ہوئے کچھ دِقت سی محسوس کر رہا ہوں. اس لیے کہ اگرچہ میں قرآن مجید کا ایک ادنیٰ طالب علم اور اسلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اس اعتبار سے مجھے زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں قرآن مجید کی راہنمائی پیش کرنے کا اہل ہونا چاہیے‘ تاہم یہ ٹیکنیکل مسئلہ کہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کیسے پیدا کیا جائے‘ واقعتا دَورِ جدید کے مشکل اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ہے‘ بلکہ اس کو اگر تقریباً لاینحل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا.
اس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اس امر سے کہ مجھے اس میدان میں کبھی کوئی عملی تجربہ نہیں ہوا. چنانچہ ایک طرف میں معروف معنی میں محنت کش بھی نہیں اور دوسری جانب سرمایہ دار تو کیا’سرمایہ کار‘ بھی نہیں ہوں‘ لہٰذا اس کوچے میں میری حیثیت عملی اعتبار سے بالکل نووارد کی سی ہے .اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محترم بہن صبیحہ شکیل صاحبہ اور محترم سردار صاحب نے میرے لیے مزید دِقت پیدا کر دی یہ فرما کر کہ وہ تو اس اجلاس میں اصلاً میری تقریر سننے کے لیے آئے ہیں. بعض دوسرے اصحاب نے بھی اصل راہنمائی کا بوجھ میرے کاندھوں پر ڈال کر میری ذمہ داری میں اضافہ کر دیا ہے. لہٰذا میں پوری کوشش کروں گا کہ اس موضوع پر دین کا جو بھی تھوڑا بہت فہم مجھے حاصل ہے اس کی روشنی میں ان مسائل کا ممکنہ حل آپ کے سامنے رکھوں. بیدہ التوفیق و علیہ التکلان!