اسلامی ریاست میں دونوں نظام علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتے‘ یہ بیک وقت ہوتے ہیں اور اسلام کی برکات کا ظہور صرف قانونی نظام سے نہیں ہو پائے گا جب تک کہ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو ایمانی اور رُوحانی سطح پر زندگی بسر کریں‘ کیونکہ معاشرے کی اقدار کو کنٹرول یہی لوگ کرتے ہیں. ہمارے موجودہ معاشرے میں اصل قدر دولت اور سرمایہ ہے. جس کے پاس دولت اور سرمایہ ہے اسے بڑے سے بڑا شخص جھک کر ملے گا.لیکن روحانیت کے علم برداروں کے ہاں یہ بات نہیں. وہ جو سلطان الہند نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ علیہ جیسے گدڑی پوش درویش ہیں اور گویا اسلام کی ایمانی و روحانی تعلیمات کا مظہراتم ہیں‘ انہیں دنیا کی کسی شے سے رغبت نہیں. وہ دنیا کی کسی چیز کی ملکیت اختیار کر کے فخر کرنے والے نہیں. دن بھر کی ضرورت کے لیے دال روٹی اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت میسر ہے تو بس اس سے زیادہ کسی مزید چیز کے حصول کی خواہش نہیں. مال وزر کے انبار انہیں قطعاً متاثر نہیں کرتے. جب تک کہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو اس اعلیٰ سطح پر زندگی بسر کرتے ہوں اور وہ آیت وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کا نمونہ بن جائیں‘محض قانونی اقدامات سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی. اس لیے معاشرہ میں ایک ایسا طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے معاشرتی اقدار کا تعین ہوتا ہے‘ جس سے وہ ایمانی حقیقت سامنے آتی رہتی ہے کہ اصل مسئلہ معاش کا نہیں معاد کا ہے‘ اصل چیز دولت نہیں نیکی ہے‘ عمل صالح ہے‘ اللہ کا نام ہے اور اُس کے رسول کا اتباع اور ان کی محبت ہے. یہ اقدار اگر معاشرے میں روشنی کے مینار کی طرح بالفعل موجود نہ ہوں تو اسلام کی برکات کا کامل ظہور کبھی نہیں ہو سکتا. اس بات کو ایک نا گزیر ضرورت کی حیثیت سے سامنے رکھیے کہ یہ نقشہ بھی معاشرے میں موجود رہنا چاہیے‘ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ موجود رہنے چاہئیں اور ابو ذرؓ تو ایک انتہا کو پہنچ گئے تھے‘وہ فقراءِ صحابہ اور اصحاب ِصفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تو معاشرے کے اندر موجود تھے‘ انتہائی مسکین روکھی سوکھی کھانے والے ‘جنہوں نے سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں دے دیا تھا ‘جیسے حضرت ابو الدرداء‘ حضرت مقداد اور حضرت انس بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ. ایسے لوگوں کے متعلق جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے چہرے غبار آلود ہوتے ہیں‘ لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام یہ ہے کہ اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسموں کی لاج رکھے گا. یہ ہے ہمارے روحانی نظام کا ایک نقشہ. اگر یہ موجود نہ ہو تو محض قانونی نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں.
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے مکہ کی زمین کا کرایہ لیا اس نے سود کھایا ‘ کیونکہ لوگ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آنے پر مجبور ہیں. اب یہاں کے پروہت اور پنڈت کئی ہزار روپے ایک چھوٹے سے کمرے کے چند دنوں کے لیے وصول کرتے ہیں اور یہ سب ان کے نزدیک حلال ہے اور اس پر عیش کرتے ہیں. اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان کی ساری دولت پہلے بیروت میں عیاشیوں اور فحاشیوں پر خرچ ہوتی تھی‘ اب لندن‘ پیرس اور امریکہ میں خرچ ہوتی ہے. اگر صرف قانونی حیلہ بازیوں پر اکتفا کیا جائے تو یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے. اس لیے قانونی اور روحانی نظام کے حسین امتزاج سے ہی اسلام کا معاشی نظام ترتیب پاتا ہے ‘اور جہاں ان دو کی یکجائی ہو تب کسی نظام کو اسلام کا معاشی نظام کہا جا سکتا ہے. یہ ہیں چند نکات جن کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے.
؏ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۲۴/اگست ۱۹۸۲ء