پاکستان میں عشری نہیں صرف خراجی زمین ہے

پروفیسر رفیع اللہ شہاب

اسلامی ریاست میں حکومت کی آمدنی کی سب سے بڑی مد خراجی زمین ہے‘ اور آج بھی اس مد سے اتنی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے کہ کسی مزید ٹیکس کی ضرورت باقی نہیں رہتی. اسلامی قانون کے مطابق تمام مفتوحہ ممالک‘ جن میں برصغیر پاکستان و بھارت شامل ہیں‘ کی اراضی خراجی کے ذیل میں آتی ہیں. تمام اسلامی ادوار میں اس اسلامی قانون پر سختی سے عمل ہوتا رہا ہے‘ یہاں تک کہ ۱۷۹۳ء میں انگریزوں نے بنگال کے بندوبست دوامی کے ذریعے یہاں کی اراضی کی حیثیت بدل دی اور غیر حاضر زمینداروں کا ایک طبقہ پیدا کر دیا. ان زمینداروں نے اپنی طرف سے عشر ادا کرنا شروع کیا اور کوشش کی کہ علماء اس کے جواز کا فتویٰ دیں‘ لیکن چونکہ ایک دفعہ خراجی قرار دی ہوئی زمین ابد تک عشری میں تبدیل نہیں کی جا سکتی‘اس لیے دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء میں اس بارے میں جو سینکڑوں فتوے پوچھے گئے ان سب کا یہی جواب دیا گیا کہ یہ اراضی کسی صورت میں عشری میں تبدیل نہیں ہو سکتی. ہاں ‘ احتیاطاً کوئی عشر ادا کردے تو اس کی اپنی مرضی ہے.

اس موضوع پر راقم کا ایک مفصل مضمون نوائے وقت میں شائع ہو چکا ہے. مجھے توقع تھی کہ علماء کرام اس سلسلے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے تو تیس سال سے لگ رہے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے جس قدر ’’ہوم ورک‘‘ کی ضرورت ہے اس سے پہلوتہی کی جاتی رہی. اس موضوع پر راقم نے پندرہ سال پہلے تحقیقی کام شروع کیا اور ۱۹۶۹ء میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک مختصر سی میٹنگ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین علامہ علائو الدین صدیقی نے نظامِ عشر پر گفتگو شروع کی تو راقم نے بہت 
سے اہل علم کی موجودگی میں اس کی تصحیح کی کہ ہمارے ملک کی اراضی ’’خراجی‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں جن پر عشر کا اطلاق نہیں ہوتا. اور اس کے ساتھ ہی اسلامی فقہ کی معتبر کتابوں سے تمام حوالہ جات ان کے سامنے رکھ دیے. علامہ شاہ محمد جعفر پھلواری اور ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالروں نے میرے نقطہ ٔنظر کی تائید کی. چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ میں نظریاتی کونسل کی رہنمائی کے لیے ایک مسلسل کتاب اس موضوع پر تیار کر دوں جس کی نگرانی مسٹر خالد اسحاق ایڈووکیٹ کریں گے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سینئر رکن تھے اور آج بھی اس منصب پر فائز ہیں. راقم نے خالد صاحب کی لائبریری میں بیٹھ کر دوماہ میں مطلوبہ کتاب تیار کر کے ان کے حوالے کی اور ساتھ ہی اس کے مطابق ۱۹۷۹ء کا قومی بجٹ بھی بنا دیا جس میں موجودہ ٹیکسوں میں سے ایک ٹیکس بھی نہ تھا. میرا تحقیقی کام ان حضرات کے لیے اچنبھے کی بات تھی‘ اس لیے انہوں نے مختلف ذرائع سے اسے چیک کرایا. ادارہ تحقیقات اسلامی کے اسکالروں نے بھی اس کی تصدیق کر دی اور پھر ادارہ نے اسے کتاب کی صورت میں ’’اسلامی ریاست کا مالیاتی نظام‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا.

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب جب زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے یہ تفصیلات نہیں تھیں. اتفاق سے انہی دنوں مسٹر خالد اسحاق ایڈووکیٹ جن کی نگرانی میں راقم نے یہ تحقیقی کام کیا تھا ‘ ادارہ تحقیقات اسلامی میں تشریف لائے‘ جہاں سکالرز اسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے. راقم نے خالد صاحب کو یاد دلایا کہ انہوں نے عشر کا نیا قانون بناتے وقت پچھلے تمام تحقیقی کام کو نظرانداز کر دیا ہے اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ان کے گوش گزار کی کہ اُمت مسلمہ کے ستر فقہی مذاہب کہ جن میں سے اکثر اب ختم ہو چکے ہیں ‘ کے تمام فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے اور اسلامی فقہ کی ڈیڑھ ہزار کتابوں میں کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس کے تحت پاکستان کی اراضی کو عشری کے ذیل میں لایا جا سکے. ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالروں نے تو کچھ ناراضگی کا بھی اظہار کیا کہ یہ ادارہ اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے تحقیقی مواد فراہم کرنے کی خاطر قائم کیاگیا ‘لیکن اگر ان کی تحقیق کو درخورِ اعتنانہیں سمجھا جاتا تو پھر اس ادارے پر غریب عوام کے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے خالد صاحب سے یہ بھی درخواست کی کہ صدر صاحب نیک نیتی سے اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ اس لیے خدا کے لیے ان کے سامنے صحیح تفصیلات پیش کی جائیں. خالد صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی توجہ 
اس طرف دلائیں گے.علمائے کرام کو اس مسئلہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لیے فقہ کی ابتدائی کتاب ’’مالابُدّ منہ‘‘ کا حوالہ یہاں غیر مناسب نہ ہوگا. یہ کتاب کروڑوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور مصنف نے علماء حضرات کو نظریاتی بحثوں میں گم ہونے سے بچانے کے لیے اس میں سے وہ تمام بحثیں خارج کر دی ہیں جن کا برصغیر پاکستان و بھارت سے کوئی تعلق نہیں. عشر کا مسئلہ انہوں نے ایک چوتھائی سطر میں حل کر دیا ہے کہ چونکہ برصغیر میں کوئی عشری زمین نہیں اس لیے عشر کے مسائل بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں. اور آخر میں فقہ کی سب سے بڑی کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کا ایک حوالہ ملاحظہ ہو جس کے مطابق اگر کسی مسلمان علاقے پر دشمن کچھ عرصے کے لیے غالب آ جائے اور مسلمان اسے پھر دوبارہ حاصل کر لیں تو اس کی اراضی اپنی اصل یعنی خراجی حیثیت کی طرف لوٹ آئیں گی (جلد سوم‘ اردو ایڈیشن‘ ص۵۲‘ مطبوعہ شیخ غلام علی لاہور). امید ہے علماء حضرات فقہ کی کتابوں میں اس مسئلہ کا مطالعہ فرما کر اس کی صحیح اسلامی حیثیت عوام کے سامنے لائیں گے.

خدا آں ملتے را سروری داد!
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت
بہ آں قومے سروکارے نہ دارد
کہ دہقانش برائے دیگراں کشت

٭
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

٭
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دِہ خدایاں کشت دہقاناں خراب
انقلاب!
انقلاب اے انقلاب!
(اقبال)