اب ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر ہم اُمت مسلمہ کا جائزہ لیں کہ اس نوع کا شرک ہمارے ہاں آیا یا نہیں ‘اور اگر آیا تو کس سطح پر اور کس حد تک! اس ضمن میں سب سے پہلے تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں‘ اور میرا گہرا احساس ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس اُمت پر بڑا فضل و کرم ہوا کہ چودہ سو برس بیت جانے کے باوجود اس نوع کا کوئی عقیدہ مسلمانوں کے کسی بھی مستند فرقے کے مستند عقائد کی فہرست میں موجود نہیں ہے. یہ اللہ کا بڑا فضل اور ایک قسم کا معجزہ ہے. حالانکہ اس اُمت کو جو عقیدت اور محبت رہی ہے اپنے رسولﷺ سے اس کا پاسنگ بھی نہیں ہے وہ محبت اور عقیدت اور وہ جاں نثاری جو کسی دوسرے رسول کے اُمتیوں کو اپنے رسول کے ساتھ ہے. اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ کو خدا کا بیٹا یا خدا نہیں بنایا گیا. عوام کالانعام کے ہاں‘ واعظوں اور نعت گو ؤں کے ہاں اور اُن شاعروں کے ہاں جو فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ کا نقشہ پیش کر رہے ہوں ‘اس قسم کے اشارات اور کنائے مل جاتے ہیں اور یہ صرف ایہام کی حد تک ہے. ’’ایہام‘‘ کا مطلب ہے کہ بات صاف اور واضح نہ کی جائے کہ جس پر گرفت ہو‘ لیکن سامع کے ذہن میں ایک وہم اور ایک خیال ابھار دیا جائے. اس نوعیت کی باتیں شاعروں‘ واعظوں اور نعت گوؤں نے کی ہیں ‘جن کے شرکیہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. مثلاً یہ شعر کہ: ؎
وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا وہ مدینے میں مصطفےٰ ؐ ہو کر
اب آپ دیکھئے کہ اس میں اور اوتار کے عقیدے میں کیا فرق ہے؟ لیکن ذہن میں رکھیے کہ یہ ایک شاعر کی مبالغہ آرائی ہے . یہ ا س درجے کی چیزیں اوراس طرح کے استعارے ہیں جن سے شاعری کی دکان چلتی ہے. اس طرح کا ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے: ؎
مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر
بغیر عین کا اِک عرب ہم نے دیکھا!
اب لفظ ’’عرب‘‘ میں سے ’’عین‘‘ نکال دیجیے تو ’’رب‘‘ رہ جائے گا. یعنی رسولِ عربیﷺ اصل میں ربّ ہیں. نعوذ باللہ من ذٰلک. شعر میں بات واضح نہیں کی گئی اور آپ گرفت کریں گے تو کہا جائے گا ہم نے تو ایساکچھ نہیں کہا. لیکن یہ کہ ایک وہم اور خیال پیدا کر دیا‘ ذہن کو اُدھر موڑ دیا ‘اور سننے والوں میں جو زیادہ خوش عقیدہ ہوں گے انہوں نے واہ واہ کی ہو گی اور داد دی ہو گی. تو اس طرح کی باتیں جہلاء اور عوام کالانعام کے تحت الشعور کے اندر پروان چڑھتی چلی گئی ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں کے مستند فرقوں کے مستند عقائد میں کسی جگہ بھی کوئی ایسا شائبہ یا اشارہ تک نہیں ہے. اور یہ میرے نزدیک معجزہ ہے محمدٌ رسول اللہﷺ کا اور اصل میں اس کا براہِ راست تعلق ہے ختمِ نبوت کے ساتھ. دراصل یہ تحفظ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو عطا فرمایا کہ آپؐ اس غلو کا ہدف اور نشانہ نہیں بنے. یہ ختم نبوت کے لوازم میں سے ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا خود ذمہ لیا‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’یقینا ہم نے ہی یہ الذکر (قرآن حکیم) نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘.اور دوسری طرف محمدٌ رسول اللہﷺ کو حفاظت عطا فرمائی کہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہو جائے‘ وہ کہیں اَوتار نہ بنا دیے جائیں‘ وہ بھی کہیں خداؤں کی فہرست میں شامل نہ ہو جائیں‘ انہیں کہیں خدا کا بیٹا نہ بنا دیا جائے. تو یہ درحقیقت ایک تحفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ٔ اکرمﷺ کو عطا ہوا ہے . اس کا زیادہ اندازہ آپ کو اُس وقت ہو گا جب آپ اس حقیقت کو سامنے رکھیں گے کہ یہ معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا ہے.
حضرت علیؓ کی نسبت نبی اکرمﷺ کے ساتھ ایک اُمتی کی ہے‘ چنانچہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺ سے کم از کم ایک درجہ تو نیچے لائیں گے.ویسے تو اہل سنت کے نزدیک نبی اکرمﷺ کے بعد درجہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے ‘پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے‘ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہے اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے. لیکن اُمتیوں کو ایک ہی کیٹیگری شمار کرنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے کم از کم ایک درجہ تو نیچے ہیں‘ لیکن آپ سوچیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہنے والے پیدا ہو گئے. خدا کا بیٹا بھی نہیں بلکہ خود انہیں خدا بنا دیا گیا. بہت سے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بدترین عقیدے کی پاداش میں زندہ آگ میں جلوایا ہے .یہ ایک یہودی سازش تھی اور اس سازش کو کامیاب کرنے کے لیے لوگوں نے پورے استقلال کے ساتھ جانیں دی ہیں. اس لیے کہ قربانی دیے بغیر کسی بھی سازش کی آگ آگے نہیں بڑھتی. ہمارے ہاں جہلاء میں جو نعرہ مروّج ہے وہ ’’یاعلی مدد‘‘ کا ہے ’’یامحمدؐ مدد‘‘ کا نہیں ہے. ’’یامحمد‘‘/’’یارسول اللہ‘‘ تو محض اپنے تشخص کو نمایاں کرنے کے لیے مسجدوں میں لکھنے کے کام آتا ہے‘ یا یہ نعرہ ایک خاص فرقے کے اجتماع یا جلسہ کے اندر لگوایا جاتا ہے‘ تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ مسجد فلاں فرقے کی ہے اور یہ جلسہ فلاں گروہ کا ہے. باقی یہ کہ جو نعرہ میدان میں لگتا ہے وہ ’’یامحمدؐ مدد‘‘ کا نہیں ‘بلکہ ’’یاعلی مدد‘‘ کا ہوتا ہے.تو الوہیت کا یہ معاملہ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہوا.
مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے اندر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ساتھ ایک مشابہت پائی جاتی ہے کہ (ایک طرف) اُن سے یہود نے بغض رکھا حتیٰ کہ ان کی والدہ محترمہ پر (بدکاری کی) تہمت لگائی‘ اور (دوسری طرف) نصاریٰ نے ان سے انتہائی محبت کی‘ حتیٰ کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو اُن کا مقام نہیں.‘‘یہ دو انتہائیں ہیں. ایک گروہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی عقیدت میں اس قدر غالی ہو گیا کہ اس نے انہیں خدا کا بیٹا بنا دیا اور ایک گروہ اُن کی دشمنی میں اس انتہا کو پہنچا کہ انہیں (معاذ اللہ) ولد الزنا قرار دیا اور اپنے بس پڑتے انہیں سولی پر چڑھا کر دم لیا. بعینہٖ یہی معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ہو کر رہا کہ حضرت علیؓ کو خدا کہنے والے بھی پیدا ہوئے اور خوارج کا وہ فرقہ بھی پیدا ہوا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو( نعوذ باللہ) کافر اور واجب القتل کہتا تھا اور انہی میں سے ایک فرد نے بالآخرحضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا.
اب آپ اس پس منظر میں دیکھئے کہ الحمد للہ محمدٌ رسول اللہﷺ کو نہ تو خدا کا بیٹا کہا گیا اور نہ ہی خدا کہا گیا. یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا خصوصی تحفظ ہے کہ اس نوع کا کوئی بھی خیال ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوا. جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ شاعری اور نعت گوئی کی حد تک ایسی حرکات ضرور سرزد ہوئی ہیں. اس لیے کہ نعت کہتے ہوئے حدود کے اندر رہنا اکثر و بیشتر بہت مشکل ہو جاتا ہے. کسی شاعر نے بالکل صحیح بات کہی ہے ؎
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
چنانچہ نعت گوئی میں کچھ عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے‘ ہوش کا دامن ہاتھ میں نہیں رہتا . ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ بڑے سے بڑے ممدوح شخص کی ممدوحیت بھی حق کو تسلیم کرنے میں اور باطل کے ابطال میں ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنے.معصوم صرف نبی ہوتے ہیں اور نبوت ختم ہو گئی محمدٌ رسول اللہﷺ پر. اپنی ذات میں حجت تونبی اکرمﷺ ہی تھے.باقی سب کو تو پرکھا جائے گا قرآن اور حدیث کی کسوٹی پر. جو اِس پر صحیح اترے وہ صحیح ہے. کسی بھی شخص کو ہم یہ درجہ نہیں دے سکتے کہ وہ جو چاہے کہہ دے ہم اسے تسلیم کرلیں گے‘ بلکہ اس کی جو بات صحیح ہے وہ تسلیم کریں گے اورجو غلط ہے اس کو ردّ کرد یں گے. کسے باشد! بہرحال ہمارے ہاں شاعری اور نعت گوئی کی حد تک اَوتار کے عقیدے کے خیالات موجود ہیں اور صفاتِ الٰہی میں نبی اکرمﷺ کو اللہ کا ہم پلہ بنا دیا گیا ہے یہ بحث ان شاء اللہ ’’شرک فی الصفات‘‘ کے ذیل میں تفصیل سے آئے گی لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا آپ کو مسلمانوں کے کسی بھی مستند فرقے کے مستند علماء کے ہاں ایسی چیز نہیں ملے گی. اہل علم جب بات کریں گے تو ان کی بات کے اندر توازن ہو گا‘ اور وہ ان علمی احتیاطوں کو ملحوظ رکھ کر بات کریں گے. واقعہ یہ ہے کہ اگر انسان ذرا سا بھی غیر محتاط ہو جائے تو وہ شرک کے دامن میں جا پہنچتا ہے.
اسی طرح جب وحدت الوجود کا عقیدہ ہمارے ہاں شعراء کا تختۂ مشق بن گیا تو اس کی بھی جو تعبیریں عوام تک پہنچی ہیں وہ ہمہ اوست اور اَوتار والی ہیں.
ہمہ اوست کی تعبیر ہمارے ہاں اس شعر میں ملتی ہے : ؎
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ
خود رندِ سبو کش
خود برسرِ آں کوزہ خریدار بیامد
بشکست و رواں شد
برتن بنانے والا مٹی لے کر اس کو چکر پر چڑھاتا ہے تو ایک نئی چیز یعنی برتن وجود میں آجاتا ہے. اب ویسے تو یہ تین چیزیں ہو گئیں. ایک خود برتن بنانے والا‘ دوسرا وہ برتن یا کوزہ اور تیسری چیز وہ مٹی یا گارا جس سے برتن وجود میں آیا. لیکن اس شعر کی رو سے اصل میں یہ تین نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی ہے. اب وہ برتن بنانے والا خود ہی اس کوزے میں شراب بھی پی رہا ہے. پھر خود ہی اس نے خریدار بن کر اس کو خریدا‘ اور پھراس کو توڑا اور آگے بڑھ گیا. یہ جو سارا تماشا ہے یہ اُس ہمہ اوست کی تعبیر ہے. ویسے یہ شاعری اتنی بلند ہے ‘ ترکیبیں اتنی چست اور آہنگ ایسا دلکش ہے کہ آدمی جھوم جاتا ہے.اگلے شعر میں یہاں تک کہا گیا : ؎
در برقعۂ جبریل بود نازلِ قرآں
آں چشمۂ وحدت
آخر بہ جہاں صورتِ آں یار برآمد
محبوبِ جہاں شد!
یعنی جبرئیل کا لبادہ بھی اُس نے خود ہی اوڑھا‘ قرآن کا نازل کرنے والا بھی وہ خود ہے اورآخر کار نبی اکرمﷺ کی شکل میں وہ (خدا) دنیا میں خود ہی آ گیا‘ اور محبوبِ جہاں بن گیا. ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ !)
اب دیکھئے اس میں ہمہ اوست اور اوتار دونوں طرح کے تصورات جمع ہیں. شاعری اگرچہ بہت پیاری اور وجد میں لانے والی ہے ‘لیکن بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی !اسی لیے کسی نے بڑی پیاری بات کہی ہے : ’’باخدا دیوانہ باش و بامحمدؐ ہوشیار!‘‘ یعنی آپ اللہ کی جتنی تعریف کر سکیں کرتے چلے جائیں‘ تب بھی آپ اس کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتے‘ لیکن حضرت محمدﷺ کی تعریف کرتے ہوئے بہت محتاط اور چوکس رہنا پڑے گا. کسی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی معرفت کا حق ادا کر سکے. اس ضمن میں لامحالہ یہی کہنا پڑے گا : مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ وَمَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ ’’اے ربّ! ہم نے تیری بندگی نہیں کی جتنا کہ تیری بندگی کا حق تھا اور تیری معرفت حاصل نہیں کر سکے جتنا کہ اس کا حق تھا.‘‘
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز میدانِ حشر میں‘ جب دربارِ خداوندی لگا ہو گا‘ حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور میں اُس روز اپنے ربّ کی وہ حمد کروں گا جو آج نہیں کر سکتا. اس لیے کہ حمد ہوتی ہے معرفت کی نسبت سے اور معرفت نبویؐ ‘ کسی ایک جگہ آ کر ٹھہر نہیں گئی‘ بلکہ اس میں مسلسل ترقی ہوتی رہی‘ درجات بلند سے بلندتر ہوتے رہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾ (الضحیٰ) ’’اور ہر آنے والی ساعت آپ کے لیے ہر پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘. تو جیسے جیسے معرفتِ خداوندی کی منازل طے ہو رہی ہیں حمد کے درجات بھی بلند ہو رہے ہیں. جتنا آپ ربّ کو پہچانیں گے اتنی ہی اس کی حمد کر سکیں گے! چنانچہ آپ اللہ تعالیٰ کی جتنی حمد بھی کر لیں‘ پھر بھی اس کی حمد ادا نہیں ہوتی ؏ ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘. لیکن نبی اکرم ﷺ کے معاملے میں انتہائی ہوشیار رہنا ہو گا. ؏ ’’ہشدار کہ رہ بردمِ تیغ است قدم را!‘‘ کے مصداق یہاں انسان کا قدم تلوار کی دھار پر ہے. فرمانِ الٰہی ہے : لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ (النساء:۱۷۱) ’’اپنے دین میں غلو ہرگز نہ کرو‘‘. یہ غلو ہی تو تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنایا گیا‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنایا گیا. یہ محبت اور عقیدت کا غلو ہے.چنانچہ نبی اکرمﷺ کی مدح‘ تعریف اور ثناء کے بیان میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے. اور واقعہ یہ ہے کہ جہلاء اور عوام کالانعام سے قطع نظر ہمارے ہاں کے مستند فرقوں کے مستند عقائد میں الحمد للہ اس احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا ہے.