الحمد للہ ہم نے اقسامِ شرک کے حوالے سے شرک کی پہلی قسم ’’شرک فی الذات‘‘ کا کسی حد تک فہم حاصل کر لیاہے. اب ہم اللہ کی توفیق سے شرک کی دوسری قسم ’’شرک فی الصفات‘‘ کی بحث کا آغاز کرتے ہیں. شرک فی الصفات کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ جان لیجیے کہ یہ مسئلہ ذرا باریک اور علمی نوعیت کا ہے اور اس میں پاؤں پھسل جانے کا بڑی آسانی سے احتمال ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زبان کی تنگ دامانی کے باعث صفات (Adjectives and attributes) کے طور پر جو الفاظ ہم استعمال کرتے ہیں وہ خالق اور مخلوق کے مابین مشترک ہیں. یعنی وہی الفاظ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور وہی مخلوق کے لیے استعمال کرتے ہیں. جیسے ہم کہتے ہیں کائنات بھی موجود‘ خدا بھی موجود‘ میں بھی موجود‘ آپ بھی موجود. اس طرح ایک وصف ’’وجود‘‘ مشترک ہو گیا اللہ تعالیٰ میں‘ اس کائنات میں‘ مجھ میں اور آپ میں.
اسی طرح صفت ’’حیات‘‘ مشترک ہے اللہ اور مخلوق کے مابین. اللہ تعالیٰ بھی زندہ‘ ہم بھی زندہ‘ یہ چوپائے وغیرہ بھی زندہ. لفظ ’’علم‘‘ کا استعمال اللہ کے لیے بھی ہے ‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ اور بندوں کے لیے بھی‘بلکہ انسانوں میں ’’عَـــلّامہ‘‘ بھی ہوتے ہیں جو صفتِ علم کا مبالغے کا صیغہ ہے. لفظ ’’ارادہ‘‘ بندوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ ’’میرا یہ ارادہ ہے‘‘ اور اللہ کے لیے بھی کہ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾ (یٰسٓ) . اسی طرح لفظ ’’مشیت‘‘ مشترک ہے اللہ اور مخلوق کے مابین.جیسے کسی صحابی ٔ رسولؐ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے : ’’مَاشَاءَ اللّٰہُ وَمَا شِئْتَ‘‘ (جو اللہ کی مشیت اور جو آپؐ کی مشیت) تو نبی اکرمﷺ نے اُن کو سختی سے ٹوک دیا‘ اس لیے کہ اس سے شرک کا شائبہ جنم لے سکتا تھا‘ حالانکہ ان صحابی ٔرسولؐ کی نیت میں ‘معاذ اللہ‘ کوئی ایسی بات نہیں تھی. تو صفات کے لیے جتنے الفاظ مستعمل ہیں وہ سب مشترک ہیں خالق اور مخلوق کے مابین. وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی مستعمل ہیں اور مخلوقات کے لیے بھی‘ اور اسی سے فساد اور غلطی کا سارا احتمال پیدا ہوتا ہے. حالانکہ جب اِن الفاظ کا استعمال اللہ کے لیے ہوتا ہے تو ان کا مفہوم بالکل مختلف ہے اُس مفہوم سے کہ جس مفہوم میں ان الفاظ کا استعمال مخلوقات کے لیے ہوتا ہے. لفظ مشترک ہے جبکہ مفہوم جداہے.